سٹوڈنٹ آرٹیکلز
گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول(انصاف آفٹر نون) 334/ٹی ڈی اے لیہ۔
ایم ایس کوڈ : 32230346
مسکان فاطمہ ۔
کلاس: ششم
عنوان :کامیابی کے لئے ایک ناکامی ضروری ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ کامیابی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ناکامی جیسی حقیقت کو جھٹلا دیتے ہیں حالانکہ ایک اچھی کامیابی کے پیچھے ناکامی کا بھی کردار ہوتا ہے غلطی کرنا گناہ نہیں غلطی کرکے اس سے نا سیکھنا یہ بہت بڑا گناہ ہے.بعض اوقات انسان آگے بڑھتا رہتا ہے اور اس کی سوچ صرف کامیابی کے طرف مائل ہوجاتی ہے اگر وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتا تو دل ہار کر بیٹھ جاتا ہے ایسے لوگ کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے کیوں کہ وہ اپنی اس غلطی سے سیکھتے نہیں ہیں جس نے انھیں ان کی منزل کی طرف جانے سے روک رکھا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو سنوارنا نہیں چاہتے۔
حقیقت میں وہ غلطی ہی ان کی لمبی کامیابی کی چابی ہوتی ہے جس کو وہ اپنی نااہلی اور سستی سے گنوا دیتے ہیں۔دنیا میں ایسی لاکھوں مثالیں پڑی ہیں کہ لوگوں کو ایک کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ڈٹے رہے ثابت قدم رہے اس کی سب سے مثال ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے انھوں نے اللہ کے دین کی تبلیغ شروع کی بہت سی مصیبتوں کا سامنا کیا لیکن ثابت قدم رہے اور دین حق کو دنیا میں پھیلا دیا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوجائیں گے اور اللہ کی مدد سے وہ کامیاب ہوگئے۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ایسی مثالیں پڑھنی اور سننی چاہیں تاکہ ہم اپنے دل میں ناکامی کے خوف کو ختم کر سکیں اللہ پر یقین رکھیں ہمت اور بہادری کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں اور ایک دن دنیا فتح کرلیں
گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول(انصاف آفٹر نون) 334/ٹی ڈی اے لیہ۔
ایم ایس کوڈ : 32230346
مسکان فاطمہ ۔
کلاس: ششم
خود اعتمادی کے حصائل۔
انسان اس وقت تک اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے جب تک کہ وہ خود کو کسوٹی پر نہیں پرکھتا۔بچوں ک معاملے میں بھی ہم بطور استاد اور والدین صحیح طریقے سے انکے اندر کانفیڈنس پیدا نہیں کرسکتے۔جب ایک بچے کے دماغ میں یہ الفاظ داخل کر دیے جاتے ہیں کہ یہ کام آپ نہیں کر سکتے تو اس کے لیے کبھی بھی وہ کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔اس کے ایک چھوٹی سی کہانی کے زریعے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔
علی اور زین دو دوست تھے علی کی عمر آٹھ سال جبکہ احمد کی چھے سال تھی ایک دن دونوں دوست کھیلتے ہوئے گاؤں سے دور ایک کنویں پر چلے گئے۔اچانک کھیلتے ہوئے علی کنویں میں گر جاتا ہے۔احمد بہت زیادہ پریشان ہو جاتا ہے اور ڈر کی وجہ سے گھر بھی نہیں جاتا جبکہ اس وقت اسکے قریب کوئی اور بھی نہیں ہوتا جسے وہ مدد کیلئے بلا سکے ۔اس دوران وہ علی کو بلا کر کہتا ہے کہ آپ کنویں کے اندر لٹکی ہوئی بالٹی کو مضبوطی سے پکڑ لو میں آپکو رسی کی مدد سے اوپر کھینچ لیتا ہوں اور وہ آخر کار علی کوباہر نکال لیتا ہے۔اور پھر جب وہ دونوں گاؤں میں جاکے بتاتے ہیں تو کوئی بھی انکی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ ایک کم عمر کا بچہ ایک بڑی عمر کے بچے کو کیسے نکال سکتا ہے ۔بات اخر کار گاؤں کے چوہدری کے پاس پہنچ جاتی ہے لیکن وہ گاؤں کے سب لوگوں کو کہتا ہے کہ واقعی ایسا ہوا ہوگا اور احمد نے علی کو نکال لیا ہوگا لیکن سب لوگ پریشان ہوجاتے ہیں کہ عمر اور جسامت میں کم بچہ کیسے اپنے سے بڑی عمر کے بچے کو نکال سکتا ہے ؟
تو اس کے جواب میں چوہدری کہتا ہے کہ اس وقت احمد کے پاس کوئی ایسا انسان نہیں تھا جو اسے کہتا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔۔۔۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ جب ہمارے زہن میں ایک بات آجائے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے تو پھر ہم سے وہ کام کبھی نہی ہوگا۔۔۔سب سے پہلے ہم سب نے مل کر اس سوچ کو اپنے اندر اور بچوں کے اندر سے ختم کرنا ہے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔۔۔
گورنمنٹ گرلز ھائی سکول باغوالا
نام انیلا بی بی
کلاس دہم اے
عنوان: کیا آپ جانتے ہیں؟
* اگرچہ لوئی پاسچر1868 میں جزوی فالج کا شکار ہو چکا تھا اور یونیورسٹی سے اپنی ریٹائرمنٹ کے لئے درخواست بھی دے چکا تھا۔ تاہم اس نے اپنی سائنسی تحقیقات جاری رکھیں۔
* البرٹ آئن سٹائن کی تاریخ، جغرافیہ اور زبانوں میں تعلیمی کارکردگی کمزور تھی۔ لہذا اسے بغیر کسی ڈپلومہ حاصل کی اسکول چھوڑنا پڑا۔
* ارشمیدس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سسلی میں گزارا۔ جہاں بادشاہ ہائرن دوم کے ساتھ اس کے گہرے مراسم تھے۔
* 16 سال کی عمر میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے پر میری کیوری نے سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ کیونکہ اس کا باپ کلاش ہوچکا تھا لہذا کیوری کو بحیثیت استاد کام کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے گورنس کے فرائض بھی انجام دیے۔
* مسلمان ریاضی دان الخوارزمی کو الجبرا کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔
* ابن زہر(1091ء تا 1161ء) مسلمان ماہرطب تھے جنہوں نے پوسٹ مارٹم اور سرجری کی ابتدا کی۔ انہیں علم تشریح اعضاء اور علم افعالااعضاء کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
نام طالبہ: بشریٰ حسن کلاس ششم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ
EMIS: 32230137
کم ظرف
صاحب بوٹ پالش کروا لو۔اک طرف سے آواز آنے پر میں اچانک مڑا-کیا-کچھ کہا تم نے ؟میں نے فٹ پاتھ پہ بیٹھے موچی سے پوچھا۔صاحب بوٹ پالش کروا لو صبح سے ایک گاہک بھی نہیں آیا۔ شام ہو رہی تھی میں دفتر سے لوٹا تو بیٹا رو رہا تھا کہ نئی سائیکل لے دیں۔ اسے روتا دیکھ کر میں نے کپڑے حتیٰ کہ جوتے بھی نہ بدلے اور اسے لے کر بازار آ گیا۔ صاحب میری بیٹی بیمار ہے اس کی دوائی لینی ہے صاحب۔ بیٹی کی بیماری کا سن کر میرا دل پسیج گیا اور میں نے اسے اپنے جوتے پالش کرنے کے لیے دے دیے۔ لیجئے صاحب ہو گئے جوتے پالش۔ میں نے جیب سے پچاس روپے نکال کر اسے دیے۔ اس نے مجھے 20 روپے واپس کیے تو میں غصے سے بولا کہ بیس روپے پالش کے بہت زیادہ ہیں۔ صاحب مہنگائی بہت ہے وہ التجائی آواز میں بولا۔ میں نے تمہاری مجبوری کا خیال کیا اور تم سر پر چڑھنے لگے میں نے غصے سے کہا۔اتنے میں ایک پجارو وہاں آکر رکی۔ اس میں تین چار نوجوان بیٹھے تھے۔ ایک باہر نکلا اور بوٹ پالش کروانے لگا اس نے کھڑے کھڑے ہی جوتے پالش کروائےاور کہا کہ باباجی گاڑی میں آئیے میں آپ کو ادھر ہی پیسے دیتا ہوں۔ میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ یہ پیسے دے گا یا نہیں۔ اتنے میں گاڑی کے شیشے سے ایک ہاتھ باہر آیا اور بوڑھے موچی کے ہاتھ ایک دم پیچھے ہو گئے۔ میں حیران ہوا کہ یہ پیسے کیوں نہیں لے رہا ہے۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ نوٹ 5 ہزار کا ہے۔ میرے پاس کھلے نہیں ہیں صاحب بوڑھا بولا۔ تو میں کب کھلیں مانگ رہا ہوں چاچا نوجوان نے مسکراہٹ سے کہا اور گاڑی کا شیشہ اوپر کر لیا۔ گاڑی چلی گئی۔ بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ فرط مسرت سے ان پیسوں کو چومنے لگا۔ اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔ مجھے لگا میری جیب میں موجود دس روپے مجھے کاٹ رہے ہیں۔ میری کم ظرفی اور بدگمانی پر میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں۔
کالا رنگ
”صبا یہ تم ہر وقت پریشان اور اُداس کیوں رہتی ہو؟“
یہ شائستہ تھی جو خاموش بیٹھی صبا کو دیکھ کر روزانہ سوچتی اور آج اُس نے پوچھ ہی لیا۔
”نہیں تو“یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
ضرورت مند کو جب مسیحا نظر آتا ہے تو اُس کی آنکھیں اسی طرح بھیگنے لگتی ہیں۔
شائستہ نے سب بھانپ لیا اور وہ کہنے لگی ”صبا میں تمہاری دوست ہوں۔مجھے اپنا سمجھو اور اپنا مسئلہ شیئر کرو۔شاید میں تمہارے لئے کچھ کر سکوں۔”
صبا نے جواب دیا:نہیں میرا کوئی دوست نہیں مجھے کوئی دوست بنانا پسند نہیں کرتا کیونکہ میرا رنگ کالا ہے“
اوہ تو یہ بات ہےشائستہ معاملے کی طے تک پہنچ گئی۔وہ ایک ماہ پہلے ہی اس سکول میں آئی تھی۔اگلے روز شائستہ بریک میں صبا کو لے کر گراؤنڈ میں آئی اور اُسے بچوں کی کہانی والا صفحہ دکھایا اور انگلی رکھ کر ایک کہانی پڑھنے کو کہا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک کوا اپنے کالے رنگ کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا اور سوچتا تھا کہ اُس سے کوئی پیار نہیں کرتا،نہ پرندے اور نہ دیگر جانور شاید اس کی کالی رنگت ہے۔
چنانچہ وہ لبوں پر ہر وقت اللہ سے شکوے کرتا رہتا تھا۔ایک دن وہ دانے کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ اُس کی ملاقات ایک خوبصورت کبوتر سے ہوئی کوا اُس کی تعریف کرنے لگا اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا کبوتر نے اُسے سمجھایا”ہماری خوبصورتی اُلٹا ہمیں نقصان دیتی ہے۔
لوگ اس وجہ سے ہمیں پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے کسی دوست سے نہیں مل سکتے مگر تم کو یہ خطرہ برداشت نہیں کرنا پڑتا،تم آزاد ہو اور خوشگوار فضاؤں میں سانس لیتے ہو۔خدا کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔اس پر اُس کا شکر ادا کیا کرو۔
کوا کبوتر کی بات سمجھ گیا اور اُس کو اپنے چھوٹے سے دماغ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا۔ کہانی پڑھتے ہی صبا شائستہ کے گلے لگ گئی اور پھر اُس نے اپنی سہیلی کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے کتنی آسانی سے اُس کا مسئلہ حل کر دیا اور پھر صبا نے شائستہ سے درخواست کی کہ یہ صفحہ ہر ہفتہ پڑھنے کے بعد مجھے پڑھنے کیلئے دیا کرو۔
کشف اشرف ولد محمد اشرف ، جماعت:ہفتم، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر/TDA 434
‘ عمل ‘۔
عمل سے زندگی بنتی ھے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ھے نہ ناری
زندگی چار دن کی ھے یہاں جو کچھ بویا جاتا ھے وہی کاٹا جاتا ھے ،انسان جیسا عمل کرتا ھے ویسی ہی مراد پاتا ھے، ہر انسان اپنے عمل کی بدولت اپنے اچھا ھونے کا ثبوت دیتا ھے اور بے شک عمل کا دارومدار نیتوں پر ھے اگر نیت اچھی تو عمل بھی اچھا ھوگا اور بدلہ بھی اچھا ملے گا اور اگر نیت ہی اچھی نہیں تو عمل کیسے اچھا ھوگا اور پھر انسان ندامت کے آثار لیے پھر رھا ھوتا ھے اور اسی ندامت کے شکنجے میں جکڑا انسان جگہ جگہ زلیل وخوار ھوتا رہتا ھے اور یہ صرف اور صرف اسکے اپنے کیے گئے عمل کا نتیجہ ھوتا ھے ، اج کا ہر انسان یہی خواہش لیے پھرتا ھے کہ وہ قیامت والے دن اللہ کے سامنے سرخرو ھو سکے ،تو کیا کبھی وہی انسان یہ بھی سوچتا ھے کہ وہ سرخرو ھوگا کیسے…؟؟ اورکیسے وہ جنت حاصل کرےگا ….؟؟
نہیں
بلکہ سو میں سے تقریباً ننانوے فیصد لوگ صرف اپنی خواہش کا اظہار کرتے ھیں جبکہ یہ نہیں سوچتے کہ ھم کامیابی سے ہمکنار ھوں گے کیسے..؟؟
تو سنیے کامیاب ھونے کیلیے محنت ،ہمت ،بہادری ،اچھی سوچ ،اچھے کردار اور اچھے عمل کی ضرورت ھوتی ھے اور ان سب خصوصیات کا حصول اچھے خیالات پر مبنی شفاف نیت سے ھوتا ھے. مثال کے طور پر اگر ھم تعلیم کا اچھا حصول چاہتے ھیں تو ھمیں اپنی نیت کو صاف رکھتے ھوئے محنت کرنا ھوگی ، اور اگر ھم لوگوں کے دلوں کو جیتنا چاہتے ھیں تو ھمیں اپنے اعمال بہتر بنانے ھوں اچھے اخلاق اختیار کرنے ھوں گے وہ وہ عمل اپنانے ھوں گے جن سے ھمیں لوگوں کے دلوں کو جیتنے میں کامیابی ملے یعنی منفقت سے خود کو پاک رکھنا ھوگا ، من گھڑت باتوں سے گریز کرنا ھوگا اور پاکیزہ کردارکو اپنانا ھوگا تاکہ لوگ ھم پر اعتبار کریں ، انکے دلوں میں ھمارےلیے کسی قسم کا شک نہ ھو اور یہ سب ھمیں، ھمارےاچھے عمل اور صاف نیت کی بدولت حاصل ھوتا ھے ، اسی طرح جنت کو حاصل کرنے کیلیے بھی ھمیں اچھے اعمال کی ضرورت ھے اور اچھا اخلاق ،اچھی سوچ ، اچھا کردار ، ایماندار نمازی ھونا ،روزہ دار ھونا ،اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کا دل میں احترام رکھنا اور انکے ہر حکم کی اطاعت و پیروی کرنا اور ان کو بجا لانا ، یہ سب ایک انسان کے اچھے اعمال کا نچوڑ ھیں اور انسان کے یہی اعمال اسے کامیابی کی طرف لے جاتے ھیں اس کےلیے جنت کا حصول بنتے ھیں اور اگر روزمرہ کے معاملات دیکھیں جائیں تو یہاں بھی کامیاب ھونے کےلیے ھمیں اپنے ہر عمل کو بہتر کرنا ھوگا ، خود کو جھوٹ، چوری،وعدہ خلافی ،رشوت ستانی،جاہ وجلال ،منافقت ،بددیانتیوں، بدکاریوں اور حرام سے پاک رکھنا ھوگا اور ایمان کو مضبوط کرنا ھوگا ،اخلاق بہتر کرنے ھوں گے ، اچھی نیت اپنانا ھوگی ،تمام اسلام قوانین اپنانے ھوں گے ، اللہ اور حضور پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنا ھوگی تب جا کہ ھم کامیاب ھوں گے اور نہ صرف دنیا میں ھمیں کامیابی ملے گی بلکہ ھماری آخرت بھی سنور جائے گی.
کی محمد سے وفا تونےتو ھم تیرے ھیں
یہ جہاں چیز ھے کیا لوح وقلم تیرے ھیں
انسان کا بہترین کردار بھی ایک اچھا عمل ھے اگرایک انسان کا کردار اچھا ھوگا تو ہر وہ دوسرے انسان کی نظر میں اچھا کہلایا جائے گا اور ہر کوئ اس پر اعتبار کرے گا اور اگر کردار ھی اچھا نہیں ھوگا تو کوئ بھی اس پر اعتبار نہیں کرے گا اور پھر وہ زلیل وخوار ھوتارھے گا
اقبال بڑا اپدیشک ھے ،من باتوں میں محو لیتا ھے
گفتار کا غازی بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
یعنی ھم محض باتیں ہی نہ کریں کہ ھمارا کردار اچھا ھے بلکہ اپنے عمل سے ثابت بھی کریں کہ واقعی ھم اچھے کردار کے مالک ھیں
،ازمختصر اگر ھمیں زندگی میں کسی بھی موڑ پر کامیاب ھونا ھے تو اچھے اعمال اختیار کرنا ھوں گے
کلاس۔۔ہفتم
نام۔اقصی ارشد
گورنمنٹ گرلز پرا ٸمری سکول آفٹرنون 332 TDA
عظیم قائد
میرا نام قائد اعظم محمد علی جناح ہے ۔میں25دسمبر1876ء میں کراچی میں پیدا ہوا۔ میرے والد کا نام جینا پونجا تھا اور والدہ کا نام مٹھی بائی تھا ۔میں نے کچھ عرصے کر سچن مشن ہائی سکول میں پھر لندن کی آکسفورڈیونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔
مجھے اپنی ذہانت کی وجہ سے لندن کے مرکزی دفتر میں اپرنٹس شپ کا بھی موقع ملا۔ میری والدہ،میرے انگلینڈ جانے پر راضی نہ تھیں ،مگر پھر وہ ایک شرط پر مان گئیں کہ انگلینڈ جانے سے پہلے میری شادی کر دی جائے۔
1893ء میں میری شادی ایمی بائی سے کردی گئی ۔
اس کے بعد میں انگلینڈ چلا گیا۔ میں نے اپنی ساری زندگی تعلیم اور محنت کو اہمیت دی ۔برطانیہ سے واپس آنے کے بعد وکالت شروع کردی ۔اس دوران میں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی ۔
کانگریس کا حصہ بننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مسلمانوں کے حقوق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ۔
سب چیزوں کا اختیار غیر مسلموں کے پاس ہے۔ مسلمان ان کے احکامات پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ سب دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد میری سوچ میں انقلاب آیا کہ کیوں نہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ جماعت قائم کی جائے اور ان کے حق کے لئے لڑا جائے ۔
میں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔میں لوگوں کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو یکسر علیحدہ قومیں ہیں ۔میں نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ اور نئے ملک کے لئے جدوجہد شروع کردی ۔مجھے یہ سب کرتے ہوئے نہایت کٹھن حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر مسلمانوں کو 1947ء میں پاکستان جیسا عظیم تحفہ ملا ۔میری آرزوپوری ہو چکی تھی ۔پاکستان بننے کے ایک سال بعد تک میں زندہ رہ سکا اور 11ستمبر 1948ء میں میں نے وفات پائی۔
ڈاکو اچھے شہری بن گئے
شیخ عبدالقادر جیلانی بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ ہو گزرے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی تبلیغ واشاعت اسلام میں گزری۔ بے شمار لوگوں نے آپ سے روحانی فیض حاصل کیا۔
آپ کو بچپن سے ہی علم حاصل کرنے کا بے پناہ شوق تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم تو اپنے قصبے جیلان میں ہی حاصل کی لیکن دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بغداد جانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں گاڑیاں اور موٹر کاریں نہ تھیں اس لئے لوگ قافلوں کی صورت میں پیدل سفر کرتے تھے۔
چنانچہ آپ کی والدہ نے آپ کو بھی بغداد جانے والے ایک قافلے کے ہمراہ روانہ کردیا۔ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کو کچھ خوراک اور چالیس اشرفیاں گزر اوقات کے لئے دیں۔
آپ کی والدہ نے یہ اشرفیاں آپ کی قمیض کی تہ میں سی دیں تاکہ محفوظ رہیں اور چلتے وقت آپ کو خاص طور پر یہ نصیحت کی کہ بیٹا:”ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ کے قریب نہ جانا۔
“آپ نے ماں کی اس نصیحت کو غور سے سنا اور سفر پہ روانہ ہو گئے ۔قافلے کے لوگ ڈرتے ڈرتے سفر پہ روانہ ہوئے انہیں اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ کہیں راستے میں ڈاکو قافلے پر حملہ نہ کردیں کیونکہ ان دنوں راستے غیر محفوظ تھے اور ڈاکو اکثر قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے ۔
آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا قافلے نے ابھی سفر کی دو منزلیں ہی طے کی تھیں کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے رات کی تاریکی میں اس پر حملہ کر دیا۔
تمام قافلے میں افرا تفری اور بھگدر مچ گئی اور ڈاکوؤں نے اہل قافلہ کو خوب لوٹا۔ ایک ڈاکو شیخ عبدالقادر جیلانی کے پاس آیا اور کہنے لگا:” لڑکے!تیرے پاس کیا ہے؟“ آپ نے جواب دیا:”میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں جو میری قمیض کی تہ میں سلی ہوئی ہیں۔
“ڈاکو نے آپ کی اس بات کو مذاق سمجھا اور ہنستا ہوا آگے گزر گیا ۔اتنے میں ایک اور ڈاکو آپ کے پاس آیا اور وہی سوال کیا ۔آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ وہ ڈاکو یہ جو اب سن کر حیران ہوا اور آپ کو پکڑ کر اپنے سر دار کے پاس لے گیا ۔ڈاکو کے سر دار نے تعجب سے آپ کو دیکھا اورپوچھا:” لڑکے سچ مچ بتا تیرے پاس کیا ہے؟“ آپ نے وہی بات دہرائی آپ کی یہ بات سن کر سردار کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔
آپ نے اپنی قمیض کی تہ کو کھولا تو پوری چالیس اشرفیاں زمین پر گر پڑیں۔اشرفیاں دیکھ کر سردار کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
اس نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا :”لڑکے !تونے سچ بول کر اپنا راز کیوں فاش کر دیا حالانکہ تو آسانی سے اپنی اشرفیاں بچا سکتا تھا ۔
آپ نے جواب دیا:”میری ماں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا!ہمیشہ سچ بولنا میں نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کیا ہے ۔“آپ کا یہ جواب سن کر سردار اس قدر متاثر ہوا کہ بے ساختہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ سوچنے لگا کہ ایک طرف یہ لڑکا ہے جسے اپنی ماں کی نصیحت کا اس قدر خیال ہے اور دوسری طرف میں ہوں کہ اپنے مالک حقیقی کے احکام سے غافل ہو کر بے گناہ لوگوں کو لوٹتا ہوں ۔
“اس کے دل سے غفلت کا پر دہ دور ہو گیا اس نے توبہ کرلی اور قافلے کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔ اس طرح آپ کی سچائی کی بدولت ڈاکوؤں کی اصلاح ہو گئی اور وہ نیکی اور پر ہیز گاری کی زندگی گزارنے لگے۔
اقرا قاسم، جماعت:ہفتم، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر/TDA 434
س_وہ کون سا جاندار ہے جسے اپنی موت کا علم ہوتا ہے؟
ج۔۔سزاءے موت کا قیدی
س۔۔انسانی دماغ میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں؟
ج۔۔٨
س۔۔وہ کون سا جانور ہے جو گردن نہیں موڑ سکتا ؟؟؟
ج۔۔مینڈک
س۔۔دنیاکی سب سے بلند عمارت کون سی ہے؟؟
ج۔۔برج خلیفہ
س۔۔وہ کون سا جاندار ہے جس کے ٣٢ دماغ ہیں ؟؟ج۔۔Leeches
س۔۔پاکستان کا قومی رس کون سا ہے؟
ج۔۔گنے کا رس
س۔۔۔ وہ کیا ہے جو آپ اندھیرے میں دیکھ سکتے ھیں مگر روشنی میں نہیں ؟؟
ج۔۔ اندھیرا
رابعہ اختر
جماعت ششم
گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول ٢٨٤ٹی ڈی اے لیہ
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول باغ والا
نام حراء خورشید
کلاس دہم
عنوان: حضرت انسان
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی!
کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو یہ باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پہائ
یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی
یہی فرزند آدم ہے کہ جس کے اشک خونیں سے
کیا ہے حضرت یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے
غرض انجم سے ہے کس نے شمشا کی نگہبانی
اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے؟
میرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟
( شاعر: علامہ اقبال)
تکمیل ایمان کے چار اصول
” ترجمہ ۱ جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے بغض رکھا اور اللہ کی رضا کے لیے عطا کیا اور اللہ کے لیے روکا تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔
اس حدیث مبارکہ میں تکمیل ایمان کے چار اصول بیان کیے گئے ہیں۔
- انسان کسی سے محبت کرے تو اللہ تعالیٰ کے لیے
- کسی سے بغض رکھے تو محض اللہ تعالیٰ کے لیے
- انسان کسی کو کچھ عطا کرے تو اللہ تعالیٰ کے لیے
- اور کسی کو عطا کرنے سے ہاتھ روک لے تو وہ بھی محض اللہ تعالیٰ کے لیے۔
حضور نے اس حدیث میں ان چاروں اعمال کو ایمان کی تکمیل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ انسان سے بے حد محبت رکھتا ہے لہٰذا انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی محبتوں اور الفتوں کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی رکھے۔
دنیا میں جس سے محبت رکھے محض اللہ کی رضا کے لیے۔ اس کے علاوہ اول تو کسی سے بغض نہ رکھے اور اگر کسی سے بغض ہو بھی تو اس کی بنیاد محض یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو نا پسند کرتا ہے۔ اس لیے جب کسی سرکش و ظالم کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں۔ اس کے علاوہ اگر کسی کومال عطا کریں تو اس کی بنیاد بھی ریا کاری یا دنیاوی غرض نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور اگر کسی سے ہاتھ روکیں تو محض اس لیے کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے ہاتھ روکنے کا حکم دیا ہے۔
محمد زین العابدین جماعت دہم
گورنمنٹ سیکنڈری سکول نور جگ والا
سکول نام:۔ گورنمنٹ گرلزہایئرسیکنڈری سکول لدھانہ لیہ
ایمس کوڈ:۔ 32230046
کلاس:۔
خبریں
”معلومات پاکستان “
1.پاکستان کا قومی شاعر علامہ اقبال
2. پاکستان کاقومی دریا دریائے سندھ
3. پاکستان کاقومی پہاڑ کےٹو
4. پاکستان کاقومی دن 23مارچ
5. پاکستان کاقومی نشان ستارہ ہلال
6. پاکستان کی قومی زبان اْردو
7. پاکستان کاقومی کھیل ہاکی
8 . پاکستان کاقومی لباس شلوار قمیض
9. پاکستان کاقومی پھول چنبیلی
10. پاکستان کاقومی پھل آم
11. پاکستان کاقومی جانور مارخور
12. پاکستان کاقومی پرندہ چکور
13.پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس
14. پاکستان کی قومی سبزی بھنڈی
15. پاکستان کاقومی سالن آلو گوشت
16. پاکستان کاقومی درخت دیودار
اولاد کے حقوق و فرائض
اسلام میں والدین پر اولاد کے حقوق مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
” اے اہل ایمان اپنے اپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ سے بچاو۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی پرورش ، تعلیم اور اچھی تربیت کا اہتمام کریں اور پھر اچھی جگہ ان کی شادی کریں۔ اولاد کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھیں۔ والدین کی وفات کے بعد بھی اولاد صالحہ ان کے نامہ اعمال میں نیکیوں میں اضافہ کا سبب ہوتی ہے۔
اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کے سوا والدین کا ہر حکم بجا لائیں ۔ ان سے رحمت و محبت اور نرمی کا رویہ اختیار کریں۔ ان کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھیں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے جزبات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔ اپنی مصروفیات سے مناسب وقت ان کے لیے مختص کریں۔ ان کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
” ان دونوں کو اف بھی نہ کہو اور نہ ہی انھیں جھڑکو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازو ان کے لیے جھکائے رکھو۔ کہو اے رب، ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔
محمد سمیع اللہ جماعت نہم
گورنمنٹ سیکنڈری سکول نور جگ والا
نام طالبہ: کنزا بی بی کلاس ششم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ
EMIS: 32230137
انمول موتی
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مومن نہ طعنہ زن ہوتا ہے نہ محض گفتار اور نا فضول گو (ترمذی)۔
جب تمہیں اپنے اچھے عمل سے مسرت ہو اور برے کام سے رنج و قلق ہو تو تم مومن ہو (مستند احمد)۔
۔ انسان میں سب سے بڑی بداخلاقی گھبرا دینے والا بخل اور دل ہلا دینے والی بزدلی ہے (ابو داود)
مسلمانوں کی مثال باہمی محبت اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم اگر اس کا کوئی ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
عادت پر غالب آنا کمال فضیلت ہے۔
کارخانہ قدرت میں فکر کرنا بھی عبادت ہے۔
نام طالبعلم | |
نہم | کلاس |
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کھوکھر والا لیہ | سکول |
انسانیت
ایک بچہ دس روپے لے کر چاول کی ریڑھی والے کے پاس آیا ریڑھی پر ٹھرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والے تھی کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دے دوں گی اتنے میں ریڑھی کا مالک خود ہی آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے چاول شاپر میں ڈال کر دیے۔ میں نے سوال پوچھا مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول کیسے دئیے۔ کہنے لگے بچوں کے لئیے کیسی مہنگائی بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ میرے پاس تو بچے پانچ روپے لے کر آتے ہیں اورمیں ان بچوں کو بھی انکا ر نہیں کرتا اور صرف پانچ رعپے میں شاپر اور سلاد نہیں ملتا۔ لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کے لئے ہوتی ہیں جو پانچ اور دس روپے لے کر آتے ہیں اور وہ جب چاول کے ساتھ چھوٹی بوٹیاں دیکھ کرمسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ھوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے دس روپے لے کر نہیں آتے ہیں بلکہ یہ غریبوں کے بچے ہوتے ہیں۔ یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔ یہ محبت کا خالص جزبہ بچوں سے محبت یہ غریبوں کا احساس تھا۔ مجھے سمجھ آ گئی ےتھی کہ چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوا انسانیت اب بھی زندہ ہے
گناہ جنہیں ہم معمولی سمجھتے ہیں
دین سے دوری کے باعث آج گناہ ہمارے اندررچ بس گئے ہیں اور عام روٹین میں شامل ہو گئے ہیں۔ اور ہم انہیں بغیر پراہ کیے کرتے جارہے ہیں جیسے ان کے بغیر ہمارا گزارہ ممکن نہیں، جبکہ وہ معمولی بات ہی نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سے کام ہیں جو کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتے ہیں اور ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
- والدین کی نافرمانی کرنا جو کہ بہت عام ہے، کبیرہ گناہ ہے۔
- چغلی کھانا جو کہ ہمارا معمول ہے۔
- غیبت کرنا جس کے بغیر گزارہ مشکل لگتا ہے۔
- دوسروں کے نسب میں لعن طعن کرنا جو ہمارے نزدیک بہت معمولی بات ہے۔
- رحمت خداوندی سے مایوس ہونا۔
- ریاکاری کرنا جو آج کل چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔
- تجسس کرنا جو کہ زیادہ تر سہیلیوں کے بارے میں اور خواتین کا دوسری عورتوں کے بارے میں عام ہے۔ غرور و تکبر بھی عام ہے۔
- پیشاپ کرتے وقت مکمل پاکی حاصل نہ کرنا۔
- خیانت کرنا ، چاہے بات میں ہو یا مال میں۔
- احسان جتلانا جو کہ دوستوں میں عام ہے۔ ادھر ناراض ہوئے اُدھر احسان منہ پر مارے۔
- دھوکہ دینا، فراڈ کرنا، بے وفائی اور عہد شکنی کرنا۔
- باہم لڑنا جھگڑنا جو عورتوں اور مردوں میں دونوں میں ہے۔
- رشوت لینا یا دینا ، دونوں جہنم لے جانے کا باعث ہیں مگر کوئی سمجھے ۔۔۔تو
- اللہ تعالیٰ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو سرزد ہوجائیں انہیں معاف فرمائے(آمین)
رقیہ بی بی
ہشتم
گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول(انصاف آفٹر نون) 334/ٹی ڈی اے لیہ۔
ایم ایس کوڈ : 32230346
مسکان فاطمہ ۔
کلاس: ششم
عنوان :کامیابی کے لئے ایک ناکامی ضروری ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ کامیابی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ناکامی جیسی حقیقت کو جھٹلا دیتے ہیں حالانکہ ایک اچھی کامیابی کے پیچھے ناکامی کا بھی کردار ہوتا ہے غلطی کرنا گناہ نہیں غلطی کرکے اس سے نا سیکھنا یہ بہت بڑا گناہ ہے.بعض اوقات انسان آگے بڑھتا رہتا ہے اور اس کی سوچ صرف کامیابی کے طرف مائل ہوجاتی ہے اگر وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتا تو دل ہار کر بیٹھ جاتا ہے ایسے لوگ کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے کیوں کہ وہ اپنی اس غلطی سے سیکھتے نہیں ہیں جس نے انھیں ان کی منزل کی طرف جانے سے روک رکھا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو سنوارنا نہیں چاہتے۔
حقیقت میں وہ غلطی ہی ان کی لمبی کامیابی کی چابی ہوتی ہے جس کو وہ اپنی نااہلی اور سستی سے گنوا دیتے ہیں۔دنیا میں ایسی لاکھوں مثالیں پڑی ہیں کہ لوگوں کو ایک کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ڈٹے رہے ثابت قدم رہے اس کی سب سے مثال ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے انھوں نے اللہ کے دین کی تبلیغ شروع کی بہت سی مصیبتوں کا سامنا کیا لیکن ثابت قدم رہے اور دین حق کو دنیا میں پھیلا دیا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوجائیں گے اور اللہ کی مدد سے وہ کامیاب ہوگئے۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ایسی مثالیں پڑھنی اور سننی چاہیں تاکہ ہم اپنے دل میں ناکامی کے خوف کو ختم کر سکیں اللہ پر یقین رکھیں ہمت اور بہادری کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں اور ایک دن دنیا فتح کرلیں
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 336/TDA (لیہ)