شمع کی آپ بیتی

ا یک امید ہوں آس ہوں جستجو ہوں تلاش ہوں چمک ہوں خوا بوں کی تعبیر ہوں زندگی ہوں روشنی ہوں – کیا کہو ں کیا ہوں میں؟ بہت سارے نام ہیں میرے اس لیے مغرور ہوں اور کیوں نہ اترا ؤ نخرے کروں کہ کوئی ہے میرے جیسا ؟ جو اپنی زندگی قر بان کر کے دوسروں کی آس بنے، امید بنے روشنی بنےبھٹکے کو راستہ دکھاے اور خود مٹ جا ے ہاں

“شمع ہوں میں”

شا عروں نے ادیبوں نےاصلا ح کاروں نے میری مثا لیں دے کر لو گوں کو سیدھا راستہ دکھا یا- طا لبعلموں کی آس ہوں میں اندھیرے میں واحد سہا را تھی میں “تھی”؟ ہاں اب بھی ہوں لیکن اتنی اہمیت نہیں رہی میری اب ایجادات نے بھی دنیا کو بدل دیا ہے لیکن انسا نیت کی پہچا ن ہے کہ وہ اصل کو نہیں بھولتا اس لیے میں بھی سب کو یا د ہونگی- جب لوگ میری مثال زندگی سے دیتے ہیں تو گو یا مجھے میری زندگی کے خاتمے اور قربا نی کا لا زوال ، بے مثال اجر مل جا تا ہے مٹتے مٹتے ختم ہوتے ہوے بھی یہ خوشی ہوتی ہے کہ ا نسانیت کی خدمت میں ختم ہوئی –مجھ سے زیادہ اس دنیا میں خوش قسمت کو ئی ہوگا کیا؟ اس لیے خوشی خوشی قربان ہوتی ہوں اور یہ شعر کس کو یاد نہ ہوگا جو علامہ اقبال جیسے عظیم شا عر نے میر ے لیے کہا اور تمام عالم انسا نیت کو سبق دیا او ر مثال کون تھی میں تھی ہاں میں

“زندگی شمع کی صو رت ہو خدایا میری”

اور جب سکولوں میں لوگ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاے ہوے ہوتے ہیں تو گویا میں مر کر بھی ہمیشہ کی طرح زندہ ہو جاتی ہوں اور میراکبھی خاتمہ ،اختتام زوال نہیں ہے کیونکہ میں عظیم مقصد کے لیے قربان ہوں اس مجھے اپنے ہونے پر فخر ہے-

آمنہ اکبر

جما عت – نہم

گو رنمنٹ ہا ئی سکو ل 162ٹی ڈی اے لیہ

اردو زبان کی آپ بیتی

میں آج کل پاکستان کی قومی زبان ہوں۔مگر اس وقت میں بڑے اہم مسلے کے سلسلے میں آپ سے ہم کلام ہوں۔یہ مسلہ میری تحقیر اور تذلیل کا ہے۔آگرچہ مجھے پاکستان کی قومی زبان تو قرار دے دیا گیا ہے۔لیکن مجھے وہ مقام نہیں دیا گیا۔جس کی میں حقدار تھی۔

چلیے میں آپ کو اپنی زندگی کے چند حسین لمحات کی داستان سناتی ہوں۔میری پیدائش کے متعلق تو مختلف نظریات ہیں۔البتہ یہ بات درست ہےکہ میں برصغیر میں پیداہوئی ۔ابتدائی ایام میں میرا نام “اردوئے معلیٰ”تھا۔اب صرف “اردو” کے نام سے پہچانی جاتی ہوں۔

اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی “لشکر” کے ہیں۔میری پرورش نہایت اعلیٰ لوگوں نے کی۔ابتدامیں سلطان محمد علی قطب شاہ نے مجھے استعمال کرتے ہوئے اپنا دیوان لکھا۔بعد ازاں مشہور شعراء جیسے ولی،دکنی،میر،سودا،غالب،جوش، اقبال،ظفر اور موہانی نے اپنی شاعری کے ذریعےمجھے ترقی دی۔

نہ جانے یہاں کے لوگ میری وفاوں کو کیوں فراموش کر رہے ہیں۔میری یہ آرزو ہے کہ مجھے مناسب مقام دیا جاِئے۔

محمد ذیشان سعید

کلاس نہم

گورنمنٹ ہائی سکول جیسل کلاسرہ لیہ

ایک سکے کی آپ بیتی

آج آپ مجھے گردوغبار میں پڑا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر میں ہمیشہ ایسا نہ تھا- جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں ایک بینک میں تھا۔ مجھے اپنی پیدائش کے بارے میں کچھ خاص علم نہ تھا۔ بس میں تو اپنے حسن میں مگن تھا۔میرا انگ انگ دھات کی چمک سے سجا ہوا تھا۔

کوئی بھی مجھے دیکھتا تو اس کی آنکھیں میری چمک سے چندھیا جاتیں۔ ہر کوئی مجھ جیسے حسین پانچ روپے کے سکے کا مالک بننے کا خواب دیکھتا۔

ایک روز بینک میں ایک خوبرو اور دراز کا تختہ منتقل ہوئی وہ چار سال سے ایک امیر گھرانے کی خاتون معلوم ہوتی تھیں انہوں نے دس ہزار پانچویں کا ایک چیک کیش کروایا اسی دن میری بخت خفتہ بھی بیدار ہوئی۔ دس ہزار روپے کے نوٹوں کے ساتھ میں ایک واحد سکہ تھا۔ ان خاتون نے مجھے اپنے خوشبو دار بیگ میں ڈال دیا۔ اس نئے ماحول میں بہت خوش تھا مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ جیسے ہی وہ خاتون اپنے گھر میں داخل ہوئی ان کی نظر اپنی نوکرانی کی بیٹی پر پڑ گئی۔ وہ گیند سے کھیل رہی تھی۔ اس خاتون نے پیار سے بچی کے سر پر تھپکی دی اور مجھے اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ مجھے پاتے ہی اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی۔ اب اس نے گیند کو چھوڑا اور مجھ سے کھیلنے لگی۔

کبھی وہ میلے کچیلے ہاتھوں سے مجھے اچھالتی تو کبھی مجھے اپنے منہ میں ڈالتی۔ ایک لمحے تو مجھے اپنی موت کا یقین ہو چلا تھا کہ جب میں بچی کے حلق کے بالکل دہانے پر تھا۔ اس دن کے بعد مجھے کئی دنوں تک نیند نہ آئی گویا

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔

خیر دن گزرتے گئے۔ اس بچی نے مجھے ایک ریڑھی والے کو دے دیا۔ میں کئی دن اس کے ڈبے میں بند رہا پھر اس ریڑھی والے نے مجھے ایک فقیر کو دے دیا۔ فقیر نے مجھے اپنے پیوند لگے لباس کی جیب میں ڈال دیا۔ مگر اس کی جید ایک طرف سے پھٹی ہوئی تھی مجھے ڈر تھا کہ میں کہیں گر نہ جاؤ لیکن وہی ہوا جو میں نے سوچا تھا۔ میں اپنا خوبصورت ماضی یاد کر کے رونے لگا۔ آنسو تھے کہ ہم ہی نہ تھے۔ گویا

مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے

اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی

مگر میرے آنسو بیکار ثابت ہوئے ۔آخرکار میں گر ہی گیا۔اب میں ایک غبار بھری سڑک پر قسمت کو رو رہا ہوں اور پرانے دن یاد کر کے کبھی خوش ہوتا ہوں تو کبھی غم زدہ۔

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اقصیٰ شفیق کلاس دہم، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 434/TDA

کتاب کی آپ بیتی

میں ایک کتاب ہوں۔ مجھے میرے مصنف نے بڑی محنت کے ساتھ لکھا اور پھر پبلشر نے مجھے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ شائع کیا

اس کے بعد میں کتاب گھر پر چلی آئی۔ اس کتاب گھر کے بالکل سامنے ایک کھلونے اور ویڈیو گیمز کی دکان تھی۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ بچے کتابوں کو چھوڑ کر ویڈیو گیمز اور کھلونے خریدتے ہیں ۔وہ چیزیں خرید رہے ہیں جو ان کو تفریح کے علاوہ کچھ نہیں دیں گی۔

ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ مجھے کسی نے خریدا ہی نہیں تھا لیکن سامنے والی دکان جس میں کھلونے اور ویڈیو گیمز ملتے تھے۔ جس میں ہر روز بہت ہی زیادہ رش تھا۔

ایک سال ہوگیا تھا مجھے دکان میں لیکن مجھے کسی نے نہیں خریدا۔ مجھ پر مٹی پڑ گئی میں بہت پریشان تھی۔کہ لوگ علم ڈے دور کیوں ہو رہے ہیں؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک مجھے ایک نو عمر لڑکے کی آواز آئی جو میری طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا کہ میں نے یہ کتاب لینی ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو خوشی کے مارے رونے لگی۔ میں سوچنے لگی کہ شکر ہے کہ ایسے بچے اب بھی ہیں جنہیں کتابوں سے محبت ہے۔ اس ںچے نے مجھے خریدا اور اپنے گھر لے گیا۔

وہ مجھے پڑھنے لگا اور پڑھ کر بہت خوش ہوا اور بولا کتنے مزے کی کتاب ہے۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اس کے بعد وہ مجھے اپنے سکول لے گیا اس کی ٹیچر مجھ سے اس بچے کو سبق دیتی اور وہ بچہ گھر آکر مجھ سے اپنا سبق یاد کرتا۔ وہ نو عمر بچہ مجھے یاد کرتا اور اپنے ذہن میں رکھتا۔ جب اس کے امتحان آئے جو کچھ اس نے مجھ سے پڑھا وہ اس کے امتحان میں اول نمبر پر آیا تھا۔ اس کے ماں باپ اسے بہت خوش ہوئے ۔وہ بچہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا۔

اب میں اس ڈاکٹر صاحب کے گھر لائبریری کی زینت ہو اب اسی کے نیچے سے استفادہ کریں-

ارسہ مریم ولد شبیر حسین جماعت نہم ، ، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 434/TDA

اچھی باتیں

  • دینا شروع کر دیں۔ آنا خود ہی شروع ہو جائے گا ۔عزت بھی اور رزق بھی
  • سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی اللہ پر یقین رکھنا اسے ایمان کہتے ہیں
  • پرندے اڑتے ہیں تالابوں پر جب یاد مدینے کی آتی ہے آنسو گرتے ہیں کتابوں پر۔
  • پہاڑ سے بلبل کی صدا نکلی محمد تو بہت اچھے تھے لیکن امت بے وفا نکلی۔
  • کامیاب لوگ اپنے ہونٹوں پہ دو چیزیں رکھتے ہیں۔ خاموشی اور مسکراہٹ ۔خاموشی مسائل سے دور رہنے کے لئے ہے مسکراہٹ مسائل کے حل کے لیے ہے ۔
  • جب ناخن بڑھ جاتے ہیں تو ناخن کاٹے جاتے ہیں انگلیاں نہیں۔ بالکل اسی طرح جب کسی رشتے میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو غلط فہمیاں ختم کرنی چاہیے رشتے نہیں۔
  • جو تمہارے 99 اچھے کاموں کو چھوڑ کر تمہاری ایک غلطی کو پکڑ لے وہ انسان ہیں جو تمہارے 99 غلطیوں کو معاف کرکے تمہارے ایک نیک عمل کو قبول کرتا ہے اسے رحمان کہتے ہیں

مصنفہ ولد محمد اشرف، جماعت دہم ، گرلز ہائی سکول چک نمبر 434/TDA

محمد عدنان نام
نہم کلاس
گورنمنٹ ہائی سکول ریلوے روڈ کروڑ سکول
32220004 EMIS CODE سکول

عنوان:- آپ بیتی

کم و بیش سو برس پہلے موسم بہار کی نشیلی صبح کو میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ میرے چاروں طرف وسیع و عریض میدان پھیلا ہوا تھا۔ کہیں کہیںاکاڑ کی جھاڑیاں نظر آتی تھیں۔ میں نے ایک ویرانے میں جنم لیا تھا۔میں حیران تھا جب میں نے ادھرادھر دیکھا لیکن یہاں دیکھنے کو کچھ نہ تھا۔ میں زیادہ دور نہیں دیکھ سکتاتھا کیونکہ میری قد بہت چھوٹی تھی۔ تھوڑی دیر میں سورج نکلا۔ دوپہرکے وقت دھوپ چھبنے لگی۔ سہہ پہر کو سکون ملا۔ایسے دن گزرتے گٰئے اور میری نشوونما ہونے لگی۔

چاندنی راتوں میں مجھ پر چاند اپنی نورانی کرنیں نچھاور کرتا رہا ، آہستہ آہستہ میرا قد بڑھنے لگا اور میںآس پاس کی چیزوں کو دیکھنے کے قابل ہوگیا۔ میرا دل کہتا تھا کہ میں بڑھوں۔ میرے ارد گرد بہت سارے درخت تھے۔ اب میں ایک مکمل درخت بن چکا تھا۔ میں نے پہلی دفعہ جب کسی انسان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو میں ڈر گیا لیکن وہ میرے پاس سے گزر گیا۔ موسم گرما کی دوپہر میں لوگ میرے سائے میں بیٹھتے تھے۔ جب پرندے میرے اوپر بیٹھتے تو میں بہت خوش ہوتا۔ کئی سال ایسے گزر گئے۔

ایک روز کچھ لوگ آئے اور انہوں نے یہاں ڈیرہ لگا لیا۔ انہوں نے جھاڑیوں کو کاٹ کر کھیت بنائے اور غلہ بویا۔ ان کی محنت رنگ لائی اور فصل بہت اچھی ہوئی۔ ان کو دیکھ کر اور لوگ بھی میرے پاس والی زمین کو آباد کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے ہر سو کھیت ہی کھیت نظر آنے لگے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ویرانا آبادی میں تبدیل ہوگیا اور آہستہ آہستہ شہر بن گیا اور کچی سڑکیں پکی بن گئیں۔

لوگ اپنے فائدے کے لئے مجھے استعمال کرنے لگے۔ میں ان کو بولتا رہا کہ میں تم کو سانس دیتا ہوں لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ مجھ کو آہستہ آہستہ کاٹنے لگے۔ لکڑیاں کاٹ لیں اب میں کسی کو سایہ دے سکتا تھا نہ کوئی پرندہ مجھ پر بیٹھتا تھا۔ مجھے خود پر ترس آتا تھا۔ مجھے اپنا گزشتہ دور یاد آتا تھا۔ آخر کار ایک شخص آیا جس نے مجھ کو کاٹ ڈالا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ اسی طرح میرا خاتمہ ہوا اوریوں ایک درخت کی زندگی کا سورج غروب ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *