بچوں کی کہانیاں
رحم دلی کا صلہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے ایک کا نام اسلم اور دوسرے کا نام اکرم تھا اسلم رحمدل اور اکرم ایک بے رحم انسان تھا ایک دن ایک زخمی کتا اکرم کو ملا لیکن اس نے اسے بھگا دیا جبکہ اسلم نے اس کی بہت دیکھ بھال کی یہاں تک کہ کتا بالکل ٹھیک ہوگیا ایک رات اکرم کے گھر چور آئے اور اس کا سارا سامان لوٹ کر لے گئے ہیں اس رات اسلم کے گھر بھی چور آئے لیکن کتے نے انہیں بھگا دیا اس طرح اسلم ایک بڑے نقصان سے بچ گیا
- نتیجہ ۔ہمیں دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آنا چاہیے
ردا لطیف کلاس دہم
گورنمنٹ گرلز ہائ سکول164-A لیہ 32230113
عنوان : آب زم زم کی کہانی
آب زم زم دنیا کا بہترین پانی ہے جو بھوک اور پیاس میں یکساں مفید ہے اور ہمیشہ محترم و مقدس سمجھا جاتا ہے – دنیا بھر کے مسلمانوں کو آب زم زم سے ایک گہری عقیدت و محبت ہے – آب زم زم محض عام پانیوں جیسا پانی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص طور پر عطا کردہ آب شفا ہے جو درحقیقت مسلمانوں پر اللہ تعالی کی بہت عنایت و رحمت ہے-
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ملا کے اپنے بیوی بچوں کو صحرا وبیابان میں چھوڑ آئیں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنی بیوی اور معصوم و کمسن بچے کو ساتھ لیا اور چل پڑے پیاس سے نڈھال بچے کو دیکھ کر اماں ہاجرہ تڑپتی اور بے چین بے قرار ہو کے دعائیں مانگنے لگیں جب بچے کی حالت زیادہ نازک ہوگئی تو حضرت ماجرہ مضطرب ہوکے اٹھیں اور بچے کو زمین پر لٹایا اور ایک پہاڑی پر چڑھ کر جس کا نام مروہ تھا وہاں پر پانی نہ ملا تو بے اختیار دوسری پہاڑی جس کا نام صفا تھا پر گیں اسی بے قراری کے عالم میں بھی کبھی صفا تو کبھی مروا کی پہاڑی پر چکر لگا رہی تھیں لیکن اس دوران یہ خدشہ بھی تھا کہ کوئی درندہ جنگلی جانور وغیرہ کے بچے کو نقصان نہ پہنچا دے اس وجہ سے بھاگ کر بچے کی طرف آتیں پھر پہاڑی پر پانی کی تلاش میں چلی جاتیں آخر کار جب چھ چکر مکمل ہوگئے تو اللہ تعالی کی رحمت کو جوش آیا اور حضرت ہاجرہ ساتواں چکر مکمل کر کے واپس آئیں تو ایک خوشگوار اور حیران کن منظر دیکھا کہ بچے کی پیاس کی شدت میں جہاں ایڑیا ں رگڑی تھیں وہاں پانی ابل رہا ہے حضرت ماجرہ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور پانی کو روکنے کے لیے چشمےکے گرد منڈیر بنانے لگیں پانی مسلسل ابل رہا تھا حضرت ہاجرہ نے کہا زمزم یعنی رک جا تو پانی رک گیا
جہاں ایڑیا ں بچے نے رگڑی تھیں بہ ناچاری
ہوا تھا چشمہ آب سرد و شعریں کاوہیں جاری
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ
محمد متین | نام |
ہفتم | کلاس |
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ | سکول |
بڑوں کا ادب
قاسم ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے ذہین ترین طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔قاسم کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا،لیکن وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا۔ اساتذہ کرام کی نقل اُتارنا،چوری چھپے ان پر جملے کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔ کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ قاسم وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔
کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر نقاہت اور کمزوری طاری تھی۔اس کی ٹانگوں پر کافی زخم آئے تھے۔
نتیجتاً اس کی دائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر باد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی؟ آخر اسے ایک سکول میں معمولی سکول ٹیچر کی نوکری مل گئی۔جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اُتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا․․․․اور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا یا اس کا بیمار،لاچار اور معذور بدن یا پھر اس کا پچھتاوا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں میاں بیوی رہتے تھے وہ بہت غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگار بھی تھے اس کی بیوی بہت لالچی عورت تھی ایک دفعہ اس کی بیوی نے اس سے فرمائش کی کہ مجھے ایک خوبصورت سا آئینہ لا کر دو وہ بہت پریشان تھا کہ وہ آئینہ کیسے خریدے گا وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ اس کی نظر زمین پر گرے ہوئے آئینے پر پڑی وہ بہت خوش ہوا اور جلدی سے اس نے آئینہ اٹھا لیا دراصل وہ آئینہ جادوئی تھا اس نے گھر جا کر وہ آئینہ اپنی بیوی کو دے دیا اور اس کی بیوی بہت خوش ہوئی وہ جلدی سے اپنے کمرے میں گئی اور اپنے آپکو آئینے میں دیکھنے لگی اچانک آئنے میں سے روشنی نکلی اور ایک عجیب و غریب شکل کا جن نمودار ہوا وہ بہت حیران ہوئیں جن نے اس لڑکی سے کہا بتاؤ تمہاری کیا خواہش ہے کیونکہ وہ بہت لالچی تھی اور لالچ میں آ گئی اس نے سونے کے ایک ہار کی خواہش کی اچانک اس کے سامنے ایک سونے کا ہار نمودار ہوا وہ بہت خوش ہوئی وہ طرح طرح کی خواہشات کا اظہار کرنے لگی وہ دن بہ دن بہت لالچی ہوتی گئی اور آخر میں ایک دن اس نے جن سے خواہش کی کہ وہ اس کو اپنی دنیا کی سیر کرائے جن نے اسے اپنے جادو سے آئینے میں لے لیا وہ لالچ میں اتنی اندھی ہوگی کہ اسے یاد ہی نہ رہا کہ جب وہ آئینے میں چلی جائے گی تو آئینے سے بات کر کے اسے باہرکون نکا لے گا کیونکہ اس آئینے کے بارے میں صرف اسی کو پتا تھا لالچ کی دھن میں آ کر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیےآئینے میں قید ہوگی.
نتیجہ : لالچ بری بلا ہے
تحریر : ماہ نور پری
کلاس ہشتم (بی)
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ٹی ڈی اے کالونی لیہ
نام طالبہ۔ روبینہ بی بی
جماعت۔ ششم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شما لی لیہ۔
EMIS CODE: 32230137
جلدی کا کام شیطان کا
دادی جان پارک میں ہمارے دوست ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔کیا ہم کھیلنے چلے جائیں؟ کیا تم دونوں نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے؟ دادی نے پوچھا۔ جی دادی جان۔دونوں نے بیک وقت جواب دیا۔ٹھیک ہے چلے جاؤ مگر شام سے پہلے واپس آ جانا۔ دادی نے انہیں باہر جانے کی اجازت دے دی۔ کھیلنے کے بعد دونوں بھائی واپس آرہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک باغ دکھائی دیا جہاں ہر قسم کے پھل لگے ہوئے تھے۔حامد بھوک کا کچا تھا۔ پھل دیکھ کر اس کا جی للچایا۔ اس نے فورَ َاعلی سے باغ میں جانے کی ضد کی۔ وہ تو ٹھیک ہےحامد مگر ہم یہ پھل توڑیں گے کیسے؟ درخت پر لگے پھل ان کی پہنچ سے دور تھے۔ یہ دیکھ کر حامد نے علی سے سوال کیا۔ تم میرے کندھے پر سوار ہو جاؤ اور پھل توڑ لو۔ علی نے حامد سے کہا اور نیچے بیٹھ گیا۔ حامد اس کے کندھے پر سوار ہوا اور اس نے آسانی سے بہت سے پھل توڑ لیے۔ یہ سب میرے ہیں۔ جیسے ہی وہ باغ سے باہر نکلےحامد پھلوں کو لے کر بھاگنے لگا۔ علی اسے روکتا رہ گیا مگر حامد نے اس کی ایک نہ سنی۔ اتنے میں اسے زور کی ٹکر لگی اور وہ دھڑام سے سڑک پر گرا۔ اس کے پاس موجود پھل سڑک کے کنارے بنی نالی میں گر گئے۔ اس نے رونا شروع کر دیا۔ تمہیں کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟ علی نے اسے اٹھایا اور اس کے کپڑے صاف کیے۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا مگر تم نے بات نہیں سنی۔ دیکھ لو اب لالچ کی سزا۔ معاف کرنا بھائی ویسے مجھے بھوک لگ رہی تھی۔ علی نے اپنے لئے فکر مند دیکھ کر حامد کو وضاحت دی۔ کوئی بات نہیں لیکن یاد رکھو جس طرح تم بھاگ رہے تھے تو کسی چیز سے ٹکرا سکتے تھے ۔اس لیے دادی جان ہر کام کو آرام سے کرنے کا کہتی ہیں۔ اس لئے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ بس آئندہ دھیان رکھنا علی نے حامد کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ حامد نے علی سے وعدہ کیا اور دونوں بھائی گھر کی طرف چل دیے۔ علی خوش تھا کہ شاید اب کی جلد بازی سے حامد سبق سیکھے اور آئندہ احتیاط کرے۔
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ
عبدالقدیر | نام |
ہفتم | کلاس |
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ | سکول |
چھوٹی سی نصیحت
ارشد اور امجد دو بھائی تھے دونوں اپنے ماں باپ کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے۔اگر چہ وہ غریب تھے لیکن وقت اچھا گزر رہا تھا غربت کے باوجود ماں اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتی تھی اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو صاف ستھرے اچھے کپڑے پہنائے اور اچھا کھانا کھلائے۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ماں کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گئی ان دونوں بھائیوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ان کے ابو اور چچا،وغیرہ ان کا خیال کرنے لگے لیکن ماں کی کمی انھیں بہت محسوس ہوتی تھی اور اب گاؤں میں ان کا دل نہیں لگتا تھا گاؤں میں روزگار بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ تنگ دستی اورغربت بڑھ رہی تھی حالات ایسے تھے کہ یہ دونوں بھائی اسکول بھی نہیں جا سکتے تھے ان کے ابو نے حالات میں بہتری لانے کے لئے گاؤں چھوڑ کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر میں آکر ان کے ابو نے محنت مزدوری شروع کردی اور حالات بہتر کرنے کے لئے ان دونوں بھائیوں کو بھی چھوٹے چھوٹے کاموں پر لگا دو۔
ارشد کو ایک سٹور پر ملازمت ملی اب وہ سارا دن سٹور پر رہتا گاہک آتے رہتے وہ انہیں ان کی مطلوبہ چیزیں نکال کر دیتا کاپیاں،پنسلیں،کلرز،اس سٹو پر زیادہ پڑھنے لکھنے کی چیزیں تھیں۔
ایک دن اس سٹور پر ایک آنٹی آئیں وہ بچوں کی کہانیاں لکھتی تھیں ارشد کو معلوم ہوا تو اس نے کہا میری کہانی بھی لکھ دیں،تمہیں کیسی کہانیاں پسند؟ آنٹی نے پوچھا ماں کی کہانی لکھ دیں،ارشد نے کہا،میری امی فوت ہو چکی ہیں۔
ارشد بولا ٹھیک ہے،آنٹی نے کہا،لیکن ایک بات مانو گے؟جی ،ارشد نے کہا،تم نے کہا کہ ماں کی کہانی لکھ دیں اس کا مطلب ہے کہ تمہیں اپنی ماں سے بہت محبت ہے اور ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا پڑھے،اگر تم اسکول نہیں جا سکے تو فارغ وقت میں پڑھ سکتے ہو ،تھوڑی سی کوشش سے اور کسی کی مدد سے تمہیں لکھنا پڑھنا آجائے گا اس طرح نہیں کہانیاں پڑھنی آجائیں گی اچھائی اور برائی کا پتہ چلے گا۔
کیونکہ تعلیم ہی اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتی ہے ۔ایک پڑھے لکھے انسان اور ان پڑھ میں بہت فرق ہوتا ہے بہت سے ایسے بچوں کی مثالیں موجود ہیں جو چھوٹی عمر اسکول نہیں جا سکتے لیکن جب انھیں تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا ،تعلیم کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ارشد جس سٹور میں کام کرتا تھا اس کے مالکان بہت اچھے لوگ تھے انہوں نے ارشد کا شوق دیکھ کر اسے کام کے بعد فارغ وقت میں پڑھنے کا موقع دیا،ارشد نے سوچا وہ پڑھے لکھے گا اچھی باتیں سیکھے گا تو یقینا اس کی ماں کی روح خوش ہو گی۔
اس طرح اُس نے پڑھنا لکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اُس نے تعلیم مکمل کرلی۔اب وہ ایم کام کر چکا ہے ایک فیکٹری میں مینیجر کی جاب کر رہا ہے آج بھی وہ اُس خاتون کو یاد کرتا ہے جس نے اُس کو نصیحت کی اور بات اُس کے دل میں اُتر گئی اس طرح اُس نے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور آج ایک باوقار زندگی گزار رہا ہے۔
روشنی میگزین
گورنمنٹ ہاہی سکول چک نمبر 125 بی ٹی ڈی اے لیہ
ہیڈ ماسٹر: چوہدری محمد یوسف۔ اِنچارج میگزین :عنایت اللہ ای اس ٹی
کہانی چوہا اور شیر
نام طالب علم: خُرم عباس کلاس: ہفتم
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ایک دن شیر سو رہا تھا کہ اچانک ایک چوہا آگیااوہ شیر کے بالوں میں گھُس کر کھیلنے لگا۔اچانک شیر کی آنکھ کھُل گءی اور اُس نے چوہا کو پکڑ لیا۔چوہا ڈر گیا اور شیر سے منت کرنے لگا کہ مجھے جانے دو۔شیر کو اِس پر رحم آگیا۔اُس نے چوہا کو چھوڑ دیا۔چوہاجاتے جاتے کہ گیا میں اس احسان کا بدلہ ضرور دوں گا۔شیر ہنس پڑا۔
ایک دن کچھ شکاری جنگل میں آگءے اور اُنھوں نے جال ڈال کر شیر کو پکڑ لیا۔وہاں اچانک وہ چوہا بھی آگیااور اُس نے اپنے دانتوں سے جال کو کاٹ دیا۔اس طرح شیر آزاد ہو گیا۔شیر نے چوہا کا شُکریہ ادا کیا، چوہا نے کہا کوءی نہیں ایک دن آپ نے میری مدد کی تھی آج میں نے آپ کی مدد کر دی اِس میں شکریہ کس بات کا۔
کہانی کا نتیجہ: احسان کا بدلہ احسان
رحم دل بادشاہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا اس کے دو بیٹے تھے ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہو گیا۔ حکیموں نے اس کا علاج ایک جڑی بوٹی بتایا اس کے بیٹے نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بوٹی کو لے کر آئیں گے پھر وہ جڑی بوٹی ڈھونڈنے جاتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ دونوں الگ الگ راستے سے جائیں گے چھوٹے بیٹے کو ایک بوڑھا آدمی ملتا ہے وہ آدمی بہت بھوکا ہوتا ہے چھوٹا بیٹا بہت رحم دل ہوتا ہے وہ اپنے حصے کا کھانا اسے دے دیتا ہے بوڑھا آدمی ایک فرشتے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بوڑھا آدمی اس لڑکے سے پوچھتا ہے کہ تم اتنے پریشان کیوں ہو اور لڑکا ساری کہانی بتاتا ہے کہ اس کے باپ کے علاج کے لیے ایک جڑی بوٹی چاہیے پھر بوڑھا آدمی یہ بتاتا ہے کہ جنگل میں ایک تالاب ہے اس کے اندر وہ جڑی بوٹی موجود ہے اس کی حفاظت ایک مگرمچھ کر رہا ہے اگر تم اس مگرمچھ کو مار لو تو وہ جڑی بوٹی حاصل کر سکتے ہوایک بات کا خیال رکھنا اگر تم نے اس جڑی بوٹی کو ویسے ہی ہاتھ لگا دیا تو وہ جڑی بوٹی غائب ہو جائے گی ۔ وہ ا سے طلسمی پانی دیتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ اس جڑی بوٹی کے اوپر یہ پانی ڈال دینا تو اس کو توڑ سکتے ہو لڑکا اس تالاب کو ڈھونڈنے کے لیے نکلتا ہے تو جب اس تالاب کے پاس پہنچتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہاں ایک بڑا مگرمچھ بیٹھا ہوتا ہے ۔وہ اچانک سے حملہ کرتا ہے لڑکا اس حملے کے لئے بالکل تیار ہوتا ہے وہ اپنی تلوار نکالتا ہے اور مگر مچھ کا مقابلہ کرتا ہے اس مقابلے میں مگرمچھ مر جاتا ہے یہ شہزادہ اصغر بوٹی کے اوپر پانی ڈالتا ہے اور اس جڑی بوٹی کوتوڑ تا ہے وہ اپنے بھائی کو خبر دیتا ہے پھر وہ دونوں جڑی بوٹی لے کر اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں اس کے باپ کا علاج ہوتا ہے اور پھر سب ہنسی خوشی اپنے ملک میں رہنے لگتے ہیں اور حکومت کرتے ہیں
نتیجہ : اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہئے رحمدل اور نیک ہونا چاہیے
سلمہ نور
کلاس ہشتم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ریلوے اسٹیشن کروڑ
شکر گزار
”احدعبداللہ․․․․!“ سکول گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے جیسے ہی میرا نام پکارا میں نے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایااور باہر کی طرف بھاگا۔”بابا․․․․ آج پھر اتنی دیر لگا دی“۔میں کب سے انتظار کررہا تھا‘دیکھیں کتنی گرمی ہے“بابا نے میری بات پر مسکراکردیکھا اور بولے۔” صاحب بہادر آپ بائیک پر تو بیٹھیں پھر بتاتا ہوں کیوں دیر ہوئی“۔میں نے سکول کیپ درست کی اوربابا کے پیچھے بیٹھ گیا۔اسی وقت میری نظرآگے جاتی سفید مرسڈیز پر پڑی جس میں میرا ہم جماعت علی بیٹھاتھا۔
”بابا ایک بات پوچھوں؟“۔
میرے ذہن میں کلبلاتے سوال کاجواب ضروری تھا۔”جی بیٹا․․․․․ضرور پوچھیں!“۔بابا نے نے ہجوم روڈ سے نکلتے ہوئے کہا۔
”بابا! علی کے پاپا کے پاس تو مرسڈیز ہے وہ روز اے سی والی کار میں آتا جاتا ہے اور آپ کے پاس یہ پرانی بائیک جس پر اتنی گرمی لگتی ہے۔
اوپر سے اس کی آواز‘مجھے ذرااچھی نہیں لگتی“۔میں نے براسا منہ بناکر بائیک کی طرف دیکھا۔
”تو بیٹا․․․․ بائیک بھی تو ایک سواری ہے۔اس میں ایسی کیا خامی ہے؟کم از کم آپ پیدل تو گھر سے سکول نہیں آتے نا؟۔بابا نے نرم لہجے میں مجھے سمجھایا۔
”لیکن اس میں اے سی تو نہیں نا“ میں بضد تھا۔
”بیٹا یہ تو خدا کی تقسیم ہے وہ جس کو چاہے جتنادے‘ہمیں ہر حال میں اس کا شکر گزار رہنا چاہیے“ بابانے جواب دیا۔
”تو بابا اللہ تعالیٰ ہمیں مرسڈیز کیوں نہیں دیتا؟ہماراگھر ساتھ والے انکل کے گھر جتنا بڑا کیوں نہیں؟۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز دوسروں کو کیوں دیتے ہیں؟۔مجھے ہر سوال کا جواب درکار تھا۔میں مزید بھی پوچھتا لیکن اچانک موٹر سائیکل رک گیا۔
”نیچے اترو․․․․!“ بابا نے مجھے کہا۔میں نے حیرانی سے آس پاس دیکھاجہاں کچھ فاصلے پر نئی سڑک بن رہی تھی۔
”یہاں کیوں اترے بابا؟مجھے تو پہلے اتنی پیاس لگ رہی ہے اوپر سے اتنی دھوپ“
بابا مجھے لے کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے۔
”احد بیٹا! آپ سامنے ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو سڑک بنارہے ہیں۔ان کے ساتھ خواتین بھی ہیں اور بچے بھی۔وہ سب اس گرمی میں بغیر اے سی کے کام کررہے ہیں۔ان کے پاس تو ایسا گھر بھی نہیں جیسا ہماراہے“۔
میری نظر ساتھ بنی جھگیوں پر گئی‘بابا نے اپنی بات جاری رکھی۔”احد بیٹا! کیا ان بچوں کا دل نہیں کرتاکہ وہ بھی سکول جائیں؟۔لیکن ان کے ماں باپ مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس تو اتنا سرمایہ نہیں۔لہذا زندہ رہنے کے لئے وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ مزدوری پر لگادیتے ہیں۔آپ اگر اپنے سے اوپر لوگوں پر نگاہ ڈالو گے تو اپنا آپ ہمیشہ چھوٹا لگے گا لیکن اپنے سے نیچے دیکھو تو اپنا آپ بہت بلند نظر آئے گا۔
اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل بنایا‘گھردیا۔اچھا کھانا پینا دیا تو اس پر شکرادا کرو‘نہ کہ خدا کی تقسیم پر ناشکری کرو۔یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آج ان بچوں کی جگہ آپ ہوتے پھر؟“۔بابا نے تفصیل سے سمجھایا۔میں نے فوراََ دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی سوچ پر معافی مانگی۔
واقعی اس ذات کی تقسیم میں مصلحت ہوتی ہے۔میری جھکی نظروں سے بابا کو یقین ہوگیا کہ انہوں نے میرے تمام سوالات کا جواب دے دیا ہے۔
”بس بیٹا․․․․!ہر حال میں شکر ادا کرتے رہو کیونکہ ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہیں‘دنیا کی نظر میں ان کے پاس کچھ نہیں مگر آخرت میں ان کے صبر پر انہیں بلنددرجات دئیے جائیں گے۔جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔“ بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور واپسی کے لئے چل پڑے۔میرا دل ابھی تک اللہ تعالیٰ کا شکرادا کررہا تھا۔
محمد عثمان کلاس اول / گورنمنٹ ہائی سکول منڈ ی ٹاوّن لیہ
نام ثمینہ کوثر
کلاس نہم
گورنمنٹ گرلز ھائی سکول والا
عنوان: شہزادی جو اپنے باپ کو کھانے میں نمک کی طرح چاہتی تھی
ایک بادشاہ کی تین بیٹیاں تھیں ایک دن بادشاہ نے اپنے تین بیٹیوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ وہ بادشاہ سے کتنی محبت کرتی ہے۔ بڑی نے کہا کہ وہ اپنے باپ کو شہد کی طرح چاہتی ہے۔ دوسری نے کہا کہ اس کی محبت شکر کی طرح ہے۔ تیسری اور سب سے چھوٹی نے کہا کہ وہ اپنے باپ کو کھانے میں نمک کی طرح چاہتی ہے۔ بادشاہ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔ وہ محل کے پھاٹک کے پاس گیا اور وہاں کھڑا رہا، آخر اسے وہاں سے گزرتا ہوا ایک غریب آدمی نظر آیا۔ بادشاہ نے اس کو بلایا اور کہا کہ میں تم سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہوں آدمی دنگ رہ گیا اس نے کہا ” حضور بادشاہ سلامت میں ایک غریب انسان ہوں، شہزادی سے شادی کر سکتا ہوں”۔ بادشاہ نے کہا میری یہی خواہش ہے۔ اور اپنی بیٹی کو بلا کر اس کے حوالے کیا۔ بیچارہ غریب آدمی مرتا کیا نہ کرتا۔ بادشاہ کا حکم ماننا پڑا اور شہزادی کو اپنے گھر لے آیا۔ بوڑھی والدہ زندہ تھی وہ بہت خوش ہوئی۔ شہزادی نیک اور عقل مند تھی۔ باوجود غربت میں رہنے کے اس نے سب کا دل موہ لیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ کچھ تاجر اپنا سامان لے کر باہر ملکوں کو جا رہے تھے۔ انہوں نے اس آدمی کو اپنے ساتھ جانے پر تیار کرلیا۔ تاجروں کا یہ قافلہ ایک کنویں کے پاس پہنچا اور وہاں پڑاؤ ڈالا۔ انہوں نے اس غریب آدمی کو پانی لینے کے لیے بھیجا۔ وہ بھی پانی نکالنے کا ارادہ کر رہا رہا تھا کہ اس سے ایک روح نظر آئ۔ آدمی گھبرا گیا۔ اس نے بمشکل سلام کیا۔ روح نے کہا ” میں اکثر لوگوں کو جو یہاں پانی لینے آتے ہی کھا گئی ہو۔ مگر تمہارے کرنے کے انعام میں تم کو تین انار دیتی ہو۔ لیکن تم ان کو راستے میں نہیں کاٹو گے۔ جب گھر پہنچوں گے تب کاٹو گے۔ آدمی نے روح کا شکریہ ادا کیا۔ اور انار اپنے تھیلے میں رکھ لیے، پھر وہ تاجروں کے لیے پانی لے گیا اور سب سفر پر دوبارہ روانہ ہوگئے۔ راستے میں غریب آدمی کو ایک مسافر ملا جو اس کے شہر جا رہا تھا۔ آدمی نے اسے ایک انار دیا اور کہا اسے فورا کاٹو یہ جادو کا کمال تھا یا خدا کا کرنا کے انار کے اندر سے بیج کے بجائے ہیرے نکلے۔ ساس بہو کی حیرت اور ساتھ ہی ساتھ خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ ان ہیروں کو بیچ کر ایک اچھا سا مکان بنوائیں گے۔ چناچہ مکان بن گیا۔ مکان کیا تھا محل معلوم ہوتا تھا۔ خوبصورت باغ، گھر کے سامنے فوارہ، غرض سبھی کچھ تھا۔ اللہ نے ان کو ایک پیارا سا بیٹا بھی دیا۔ ماں اور دادی دونوں بچے پر جان نثار کرتیں تھیں۔ اور دیکھ کر نحال ہوتی تھیں۔ لڑکا پرورش پاتا رہا وہ خوش ۔
شکل اور تندرست تھا۔
غریب آدمی سفر سے واپس ہوا اور گھر پہنچا تو دیکھا کہ جھونپڑی کے بجائے وہاں محل کھڑا ہوا ہے۔ اندر گیا تو بیوی بیٹے اور ماں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ بیوی نے بتایا کہ انار تو اس نے بھیجا تھا اس میں ہیرے نکلے تھے۔ ان کو بیچ کر یہ دولت حاصل ہوئی۔ اس آدمی نے دوسرے دو انار بھی کاٹے جو اس نے احتیاط سے اپنے فیصلے میں رکھ لئے تھے۔ ان میں سے بھی ہیرے نکلے۔ اب تو وہ بہت امیر ہو گئے میاں بیوی دونوں نیک تھے۔ انہوں نے ساری دولت اپنے اوپر خرچ نہیں کی بلکہ غریبوں پر بھی فراخدلی سے خرچ کرتے رہے۔ ان کی فراخدلی کی خبریں بادشاہ کو پہنچتی رہیں۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ اتنے فیاض لوگ کون ہیں؟ معلوم کرنا چاہیے کہ ان کو یہ دولت کس طرح ملی۔ چنانچہ بادشاہ اور وزیر دونوں بھیس بدل کر اس آدمی کے یہاں گئے۔ شہزادی نے باپ کو پہچان لیا۔ اور اپنے میاں سے کہا کہ آج رات ہم بادشاہ اور ان کے وزیر کی دعوت کریں گے۔ خانسا موں کو کو حکم دیا گیا کہ بڑے عمدہ انداز گانے تیار کیے جائیں لیکن کھانے دو طرح کے ہوں گے۔ کچھ نمک کے ساتھ اور کچھ نمک کے بغیر۔ پہلے بغیر نمک کا کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ اور وزیر دونوں سے اس قدر پھیکا کھانا نہیں کھایا گیا۔ چناچہ وہ کھانا ہٹا دیا گیا اور اب نمک کے ساتھ پکا ہوا کھانا دیا گیا۔ وزیر اور بادشاہ نے بڑے شوق سے یہ کھانا کھایا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو انہیں کھانا کیسا لگا تو بادشاہ نے جواب دیا کہ شروع میں بے نمک کھانا کھانے کے قابل نہ تھا۔ بغیر نمک کھانے کا کوئی مزہ نہیں البتہ دوسری دفعہ جو کھانا آیا وہ بے حد لذیذ اور علی تھا اب شہزادی کو موقع ملا۔ اس نے کہا کہ ابا جان آپ کو یاد؟ جب میں نے کہا تھا کہ میں آپ کو کھانے میں نمک کی طرح چاہتی ہوں۔ تو آپ نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔ بادشاہ کو یہ سن کر حیرت ہوئی اور وہ شرمندہ بھی تھا۔ اس نے بیٹی کو پیار کیا ، گلے سے لگایا کہا ” بیٹی تم حق بجانب تھیں۔ نمک، شکر اور شہد دونوں پر سبقت رکھتا ہے”
کھودا پہاڑ نکلا چوہا
فاران کو جاسوسی کرنے کا بے حد شوق تھا وہ اپنے آپ کو جاسوسی فلموں کا ہیرو سمجھتا تھا۔اس کے گھر والے اس عادت سے بہت تنگ تھے۔ فاران پر اگر اسی طرح جاسوسی کابھوت سواررہا تو کسی دن یہ ہم سب کے لیے کوئی بڑی مصیبت نہ کھڑی کردے۔
انہی باتوں کی وجہ سے اس کاپڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا۔ آخر اس کا ہوگا کیا“ امی نے متفکر ہوکر ابو سے کہا: اسے سمجھا سمجھا کرتھک گئے ہیں لیکن اس کے کانوں پر جیسے جوں ہی نہیں رینگتی۔ آئے دن محلے سے شکایتیں آتی رہتی ہیں۔
بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اسے بورڈنگ میں داخل کرا دوں گا، وہاں پابندرہے گا تو جاسوسی کاشوق ختم ہوجائے گا۔ ابو غصے سے بولتے چلے گئے۔ بالآخر فاران کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروایا گیا۔
یہاں صبح کے ناشتے کے لیے رات میں ہی ہر بچے کا بن ڈبل روٹی منگوالیا جاتا تھا کیونکہ بیکری صبح جلدی نہیں کھلتی تھی۔
دو چار دن سے بورڈنگ ہاؤس میں عجیب بات محسوس کی گئی کہ روزانہ ایک بچے کا بن غائب ہوجاتا۔فاران کی جس جاسوسی اس موقع پر بھڑک اٹھی۔ رات کو جب سب سوگئے تو وہ اپنے بستر پر بیٹھے کمرے میں چاروں طرف نظریں دواڑنے لگا۔ اچانک اس نے ایسی عجیب بات دیکھی کہ بے اختیار لیٹ کر چادر سر تک تان لی اور کانپنے لگا۔
رات بھر وہ خوف سے کپکپاتا رہا۔ صبح پھر اسکول سراسیمگی کاعالم میں تھا کیونکہ ایک اور بن غائب تھا۔ کسی کو معلوم ہویا نہ ہو مگر فاران کو معلوم تھا کہ چور کون ہے؟ اس نے ایک بچے سے کہا مجھے معلوم ہے کہ چور کون ہے؟ کون اور تمہیں کیسے معلوم“ بچے نے پوچھا “ جن ․․․․․․․نن! اس نے نون پر زور دے کر کہا:
جن․․․․․․؟ کیا مطلب․․․․․․․ وہ بچہ اور حیران ہوگیا۔
فاران نے چہر خوفناک بناتے ہوئے کہا ” ہاں حسن،
مگر وہ بجائے فاران سے متاثر ہوتا، اس کامذاق اڑانے لگا۔ اگلی رات جب سب سوگئے تو وہ پھر جاسوسی میں لگ گیا۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے قریب کچھ آہٹ سنائی دی۔
اس نے ایک جھٹکے سے آہٹ کی جانب دیکھا تو اسے اپنے نیچے سے بستر نکلتا محسوس ہوا۔ ایک اور بچے کابن خود بخود کھسک رہاتھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے کھسکتا دیکھ رہاتھا۔اتنا بڑا گول بن زمین پر کھسک نہیں رہاتھا۔ بلکہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھ کرفضا میں اڑرہا تھا۔
وہ تھر تھر کانپنے لگے اور پھر اس نے ذرا غور سے دیکھا تو اسے بن کے نیچے ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی۔اس نے کاپنتے ہوئے تھوڑا جھک کر غورسے دیکھا تو اس کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ اس کی ہنسی سن کر باقی بچے بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔
کیا ہوا؟ ایک نے پوچھا، ارے کیوں ہنس رہے ہو اتنی رات کو ؟ ایک اور بولا۔ فاران سب باتوں سے بے نیاز، بس اس بن کو دیکھے جا رہاتھا جواب کافی دور نکل چکا تھا۔ پھر باقی بچوں کی نگاہیں بھی اس کی نگاہوں کی سیدھ میں گئیں۔سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
اتنے بڑے بن کے نیچے چھوٹی سے چوہیا ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی پستہ قدمزدور فوم کا گدا اٹھائے چلاجارہا ہو۔ اچھا تو یہ ہے بن چور، دھت تیرے کی۔ کئی بچوں کے منہ سے نکلا اور کمرا قہقہوں سے گونج اٹھا ۔ چوہیا ان کے قہقہوں سے خوفزدہ ہوکربن چھوڑ کر سرپٹ بھاگ گئی۔ فاران نے بے اختیار کہا” یہ وہی مثال ہوگئی، کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
محمد معیز حسن / گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاوّن لیہ
واقعہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بزرگ بستر پر لیٹ کر تسبیح پڑھ رہے تھے ۔اسےمحسوس ہوا کہ کیسے کو ئی اس کے کمرے کی چھت پر چڑھا ہوا ہے ۔پوچھنے پر اسے معلوم ہوا کہ کچھ آدمی اس کےکمرے کی چھت پر اونٹ تلاش کر رہے ہیں ۔بزرگ کو حیرت ہوئی کہ بھلا کبھی چھت پر اونٹ بھی ملتے ہیں ۔تھوڑی دیر بعد بزرگ پر نیند طاری ہو گئی ۔اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جس طرح مکان کی چھت پر اونٹ نہیں ملتے اسی طرح بستر خدا بھی نہیں ملا کرتا ۔
عائشہ عمران جماعت ہفتم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 149 بی ٹی ڈی اے ،لطیف ماڈل فارم (لیہ)