بچوں کی کہانیاں
طالبعلم کا نام: مریم منیر
سکول کا نام:گورنمنٹ گرلزایلیمنٹری سکول 160 /TDA ڈیرہ مہر مسکین انصاف افٹر نون سکول لیہ
ہوشیار بادشاہ
کہتے ہیں کہ کسی ملک میں یہ قاعدہ تھا کہ وہاں ہر سال بادشاہ تبدیل کیا جاتا اور پرانے بادشاہ کو ایک ایسے جزیرے پر چھوڑ آتے جہاں سے وہ پھر کبھی واپس نہ آتا۔ الوداعی موقع پر اس خاص لباس پہنایا جاتا اور الوداعی سفر کروایا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ لوگ اپنے بادشاہ کو جزیرے پر چھوڑ کر واپس آرہے تھے تو وہاں ایک شخص ملا جسے لوگ اپنے ساتھ لے آئے آئندہ سال کے لیے بادشاہ بنانے کی غرض سے جب اسے معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو اس جزیرے پر لایا گیا ۔جہاں اسے ایک جنگل جوکہ خوفناک جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔نظرآیا۔ اور اسے پہلے پرانے بادشاہ بننے والوں کے ڈھانچے بھی دکھائی دیے جس کو وجہ سے وہ جوفزدہ ہوگیا۔
کچھ دنوں کے بعد نئے بادشاہ نے کچھ مزدور اکٹھا کیے اور انہیں حکم دیا کہ جنگل میں جاو اور اس کو صاف کرو اور خوفناک جانوروں کو بھی مار دو۔اسکے بعد اس نے ہر مہینے وہاں جزیرے کا چکر لگایا۔اور ساتھ ہی انہیں حکم دیا کہ اس جنگل میں کچھ باغات، پالتو جانور اور ایک خوبصورت محل تعمیر کیا جائے۔
بادشاہ کاعرصہ پورا ہونے کے ساتھ وہ جزیرہ بھی ایک خوبصورت قیام گاہ میں تبدیل ہوگیا۔ جب حسب معمول کے مطابق بادشاہ کو خاص لباس میں الوعی سفر کروایا گیاتو وہ بہت خوش تھا۔ اور باقی لوگ یہ معاملہ دیکھ کر حیران تھے۔ جب کہ وجہ پوچھی کہ اے بادشاہ سلامت اس موقع پر باقی بادشاہ تو پریشان ہوا کرتے تھے اور آپ خوش ہیں تو کیا ماجرا ہے؟
اس کا جواب بادشاہ نے یوں دیا:
تم لوگوں نے داناوں کا وہ قول سنا ہو گا کہ جب تم چھوٹے بچے کو اس دنیا میں آتے دیکھتے ہو تو وہ رو رہا ہوتا ہے۔اور لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں۔
ایسی زندگی جیو کہ جب تم مرو تو تم ہنس رہے ہو اور باقی لوگ رو رہے ہوں۔
جس وقت تمام بادشاہ محل کی رنگینوں میں کھوئے ہوتے تھے تومیں اس وقت مستقبل کے بارے میں سوچتا اور لائحہ عمل تیار کرتا تھ۔ اب میں نےاس جزیرے کو ایک خوبصورت جگہ میں تبدیل کردیاہے۔جہاں میں اپنی باقی زندگی سکون سے گزاروں گا۔
تو دوستو! اس کہانی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہمیں اپنے حال میں اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمارا مستقبل بھی اچھا گزرے۔
طالبعلم کا نام: سدرہ بی بی
سکول کا نام:گورنمنٹ گرلزایلیمنٹری سکول 160 /TDA ڈیرہ مہر مسکین انصاف افٹر نون سکول لیہ
ہاتھی اور چیونٹی
ایک جنگل میں ہاتھیوں کا ایک جھنڈ رہتا تھا۔ ان ہاتھیوں میں ایک ہاتھی تھا جس کا نا م راجا تھا۔ راجا بہت بڑا بد مست اور مغرور ہاتھی تھا۔وہ اپنے ڈیل ڈول اور اپنی بے پنا ہ طاقت پر بے حد اتراتا تھا۔اسے اپنے آگے سب بونے بظر آتے تھے۔ وہ جب چلتا تھا تو ایسے اٹھلا کے چلتا تھا جیسے وہ اس جنگل کا بے تاج بادشاہ ہو۔ جنگل میں سارے چرندپرند اس سے خوف کھاتے تھے۔ جب وہ سویرے سویرے چیختے چنگھاڑتے ہو ئے جنگل سے گزرتا تو جنگل کے سارے جانور بد حواس ہو کر اپنے بلوں میں گھس جاتے تھے۔وہ جدھر سے گزرتا تھا پیڑ اکھاڑ دیتا تھا۔جنگل کے سبھی جانور اس بد مست ہاتھی سے بڑا پریشان تھے۔ سبھی جانور اس توانا ہاتھی کے سامنے اپنے آپ کو بے بس اور کمزور پاتے تھے۔ ان سبھی جانوروں کی نظریں شیر جی کی طرف لگ جاتی تھی ۔ایک دن سب مل کے شیر جی کے پاس چلے گئےاور انھوں نے شیر سے فریاد کی ۔
راجااپنی طاقت کے نشے اس قدر چور تھاکہ وہ اپنے جھنڈ میں رہنے والے ہاتھیوں پر بھی قہر برسانے لگتا تھا۔اس کے سامنے کسی بھی ہاتھی کو سونڈ اٹھانے کی اجازت نہ تھی ۔ ہاتھی ہو یا ہتھنیاں سب اس کے سامنے سونڈ جھکا کر کھڑ ے رہتے تھے۔ ایک با ر ہاتھی کے ایک بچے نے اس کی ایک سونڈ سے کھلنے کی حماقت کی تو اس نے غصے سے بے قابو ہو کر اس کی جان نکال لی ۔ ایسا موذی تھا ۔ایک دن پتا نہیں اسے کس بات پر غصہ آیا اس نے جنگل میں اتنی توڑ پھوڑ کی کہ ان گنت پیڑ زمین بوس کر دیے اپنی طاقت کا نشہ اس کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اس کی اس حماقت کی وجہ سے دوسر ے جانوروں کو گھاس کے لا لے پڑ گئے ۔وہ یہ علاقے چھوڑ کر ادھر ادھر بھٹکنے لگے تھے۔ کئی جانوروں کو تو بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کئی کمزور جانور چٹیل میدان میں گدھوں اور عقابوں کے قہر کا شکار ہو گئے۔
ایک با ر پھر یہ جانور ایک جٹ ہو کر شیر جی کے پاس اپنی فریاد لے کر گئےاور رو رو کر اسے اپنا دکھڑ ا سنا یا۔شیر آ خر کار شیر تھا۔ اس بار شیر کو بڑا غصہ آیا۔ اس نےاپنے ساتھیوں کوطلب کیا ۔ بہت دیر تک وہ اس مسئلے پر بہت سنجیدگی سے غوروفکر کرتے رہے۔ آخر کافی سوچ و بچار کے بعد ی طے ہوا کہ اس ظالم ہاتھی پر حملہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے پست کیا جائے۔
عنو ا ن: کہا نی دو ست
صنم مجید | نا م طالبہ |
ہشتم | جما عت |
سکول کانام:گورنمنٹ گرلز ھا ئ سکول124/ٹی ڈی ا ےلیہ |
مریم بہت پریشان تھی کیونکہ جو بھی اُسکا دوست بنتا تھا یا تو اُس سے لڑتا جھگڑتا تھا یا پھر اُس سے جھوٹ بولتا تھا ۔اُس نے بیشمار دوست بنائے لیکن سب ہی ایسے نکلے ۔جو ایک دو بچے تھے وہ بھی اکثر لڑتے رہتے تھے ۔مریم نے اپنی یہ پریشانی جب دادی جان کو بتائی تو وہ ہنس دیں اور بولیں ۔
بیٹا یہ دنیاوی دوستیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔انسان کب انسان کا دوست رہا ہے بلکہ وقت آنے پر تودوست بھی دشمن بن جاتا ہے ۔پھر دادی جان میں کیا کروں؟
اچھا میں تمہیں ایک دوست کا بتاتی ہوں جو سب کا دوست ہے ،جو اپنے دوستوں کو کبھی بھی اُداس نہیں رہنے دیتا ہے لیکن اُسکی دوستی تھوڑی مشکل ہے دادی مجھے اُسے دوست بنانا ہے۔ مریم کی آنکھوں میں چمک تھی ۔
اچھا ٹھیک ہے ۔دادی جان نے اُسکی پیشانی چوم لی۔
مریم کو بہت اچھا دوست ملا وہ جو ساری دنیا کا نظام چلاتا ہے ۔وہی تو ہمارا دوست ہے ۔”اور بے شک اللہ نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے ۔
القرآن مریم کو جو بھی پریشانی ہوتی وہ اللہ سے شیرء کرتی ،بجائے اِسکے کہ روتی رہے ،وہ خوش رہنے لگی تھی
اسکا دوست سب سے اچھا دوست تھا،وہ اپنے دوست کی بتائی باتیں بھی مانتی جودادی نے بتائی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا ،چوری نہ کرنا ،گالی نہ دینا اور کسی کا بُرا نہ چاہنااور ایسی کئی بُری عادتوں سے مریم دور تھی بھلا وہ اپنے دوست کو کیسے ناراض کر سکتی تھی۔
طالب علم : تانیہ نذیر
کلاس: دہم (اے)
ایم ایس کوڈ:32230047
سکول نام: گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 137ٹی ڈی اے لیہ
کہانی جو بوؤگے وہی کاٹو گے
ایک لومڑی روزانہ تالاب پر پانی پینے جاتی تھی۔ وہاں اس کی دوستی ایک سارس سے ہو گئ۔ جب بھی وہ تالاب پر جاتی کبھی پانی پینے سے پہلے یا پانی پینے کے بعد سارس کا حال چال پوچھتی سارس بھی اس سے باتیں کرتا یوں دونوں میں دوستی بڑھتی چلی گئی۔ ایک دن لومٹری نے اپنے دوست سارس کو اپنے گھر دعوت پر بلوایا سارس بہت خوش ہوا اور ٹھیک وقت پر لومٹری کے گھر پہنچ گیا۔جب وہ دروازے پر پہنچا تو اسے اندر سے مزےدار کھانوں کی مہک آئی اسے خیال آیا کہ لومٹر ی اس کی بڑی پکی دوست ہے۔ جبھی تو اس نے اچھے اچھے کھانے پکائے تھے۔ جب لومڑی نے سارس کے سامنے کھانے پیش کیے تو سارس بہت حیران ہواسارے کھانے چوڑی چوڑی پلیٹو ں میں رکھے گئے تھے۔ اور سب کے سب شوربے ہی شوربے تھے۔ سارس اپنی چونچ سے کچھ بھی نہ کھا سکا لومڑی تو بڑی بڑے مزے سے چاٹ چاٹ کر سارا شوربہ ختم کر گئی۔سارس یہ سمجھ گیا کہ لومڑی نے دوستی کی آڑ میں اس کا مذاق اڑیا ہے۔سارس نے چلتے وقت لومڑی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو لومڑی نے انکار کر دیا مگر سارس نے ضد کی تو لومڑی مان گئی۔ لومڑی نے سو چاکہ سارس اس کے ساتھ چالاکی نہیں کر سکے گا۔ سارس نے لومڑی کے سامنے طرح طرح کی نعمتیں پیش کیں ۔ مگر سارس نے سب چیزیں صراحی دار برتنوں میں رکھی۔جن میں سارس کی چونچ تو آسانی سے جا سکتی تھی مگر لومڑی کا منہ اس میں نہیں جا سکتا تھا۔ سارس اپنی لمبی گردن صراحی دار برتنوں میں ڈال کر مزے مزے سے کھا نا کھا رہا تھااور لومڑی بس دیکھی جارہی تھی۔ اس دن لومڑی بھوکی گھر واپس آئی مگر سارس سے شکایت نہیں کر سکی اور اگر شکایت کرتی بھی تو کس منہ سے اس نے خود بھی تو ایسا ہی کیا تھا سارس کے ساتھ۔
اخلاقی سبق
“ جو بوؤگے وہی کاٹو گے “
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ
محمد متین | نام |
ہفتم | کلاس |
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ | سکول |
عقلمند مُرغا
کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک سوداگر تھا اور بڑا مالدار بھی تھا وہ مختلف جانوروں کی بولیاں بھی اچھی طرح سمجھتا تھا اسی دن اس نے اپنے مویشی خانے میں گدھے اور بیل کو آپس میں باتیں کرتے سنا بیل گدھے سے کہہ رہا تھا تم خوش قسمت ہوں جبکہ میں سارا دن ہل چلاتا ہوں اور تم مزے سے رہتے ہوں گدھے نے کہا میرا کہا مانو تو تم بھی آرام پاﺅ گے کل کام کے وقت بیمار پڑجانا تو مالک تم سے کام نہیں لیں گا بیل نے خوش ہوکر تجویز پر پورا عمل کرنے کا یقین دلایا سوداگر نے ان کی باتیں سن لیں مگر خاموش رہا اگلے دن جب ملازم نے بیل کے بیمار ہونے کی اطلاع دی تو سوداگر مسکرا دیا اور کہا کہ گدھے کو لے جاﺅ نوکر گدھے کو لے گیااور شام تک کام لیا رات کو جب گدھا آیا تو بیل نے شکریہ ادا کیا کہ تمہاری تجویز خوب رہی اور مجھے آرام کرنے کا موقع مل گیا گدھا دن بھر مشقت سے چور چور رتھا اس وقت تو خاموش رہا لیکن جی میں سوچتا رہا اچھی نصیحت کی کہ خود مصیبت میں پھنس گیا اگلے روز صبح سوداگر پھر مویشی خانے پہنچا تاکہ گدھے اور بیل کا معاملہ دیکھے آج اتفاقاً اسکی بیوی بھی ساتھ تھی اس وقت گدھا بیل سے پوچھ رہا تھا کہ آج کیا کرو گے؟بیل نے کہا آج بھی میں بیمار ہوں گا گدھے نے کہا نہیں ایسا غضب نہ کرنا مالک کہہ رہا تھا کہ اگر بیل تندرست نہ ہوا تو اسکو ذبح کردیا جائے گا اسلئے بہتر یہی ہے کہ آج کام پہ جاﺅ ورنہ جان کو خطرہ ہے سوداگر یہ سن کر ہنس پڑا اسکی بیوی نے حیران ہوکر پوچھا آپ کیوں ہنسے؟سوداگر نے کہا مجھے گدھے اور بیل کی باتوں پر ہنسی آگئی بیوی نے دریافت کیا کہ ان میں کیا گفتگو ہوئی؟سوداگر نے کہا یہ ایک راز ہے اگر ظاہر کردیاتو میری جان کو خطرہ ہے بیوی اصرار کرنے لگی اور کہا کہ تم بہانے بناتے ہودرست بات نہیں بتائی تو میں آپنے آپ کو قتل کرلوں گی۔
سوداگر نے اسے بہت سمجھانا چاہا لیکن وہ اپنی ضد پر اَڑی رہی اور ساتھ ہی وہ رونا پیٹنا شروع کردیا سوداگر پریشان ہوگیا کہ اگر بتاتا ہوں تو میری زندگی پر حرف آتا ہے نہیں بتاتا تو یہ جان کھودیتی ہے اس فکر میں کھڑا تھا کے کہ کتے نے مرغ سے کہا کہ تو آج بھی مرغیوں کو ڈانٹ رہا ہے؟مرغ بولا کیوں آج کیا بات ہے کتے نے کہا آج ہماری مالکہ مالک سے ایسے راز دریافت کرنے پر اصرار کررہی ہے کہ اگر بتادیا تو مالک کی جان خطرے میں پڑجائے گی مالک نہ بتائے تو مالکہ جان دینے کے لیے تیار ہیں مرغ نے کہا مالک بے وقوف ہے جو ایک بیوی کو قابو نہیں رکھ سکتا مجھے دیکھو میں نے پچاس مرغیوں کو سنبھال رکھا ہے اگر میری مرضی کے مطابق کے خلاف ذرا بھی کام کریں تو مار مار کر سیدھا کردوں۔
یہ سن کر مالک نے ہنٹر اٹھایا اور بیوی کو مارنا شروع کردیا عورت ڈرگئی اور سوداگر کے قدموں میں گر کر معافی مانگی کہ تمہاری مرضی کے خلاف آئندہ کوئی کام نہیں کروں گی اور کبھی ضد نہیں کروں گی۔
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ
محمد ناصر | نام |
ششم | کلاس |
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ | سکول |
دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے
کسی جنگل میں ایک ہاتھی رہتا تھا ۔ اس کا دوست کوئی نہیں تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی جانور کو اپنا دوست بنائے جس کے ساتھ وقت گزار سکے ۔ یہ سوچ کرہاتھی کسی جانور کی تلاش میں نکلا ۔ اسے ایک درخت پر بندر نظر آیا۔ ہاتھی نے بندر سے پوچھا ” بندر بھیا کیا اتم میرے دوست بنوگے؟
بندر بولا : میاں ہاتھی ! تم اتنے بڑے ہواور میں ایک چھوٹا سا جانور ہوں ۔ میں درخت پر رہتا ہوں اور تم زمین پر ۔ تم میری طرح درخت پر نہیں چڑھ سکتے ۔ میری اور تمہاری دوستی کس طرح ہوسکتی ہے ؟
بندر کی بات سن کا ہاتھی اداس دل کے ساتھ وہاں سے چل دیا ۔ وہ تھوڑی دورہی پہنچا تھا کہ اسے ایک خرگوش نظرآیا ہاتھی نے خرگوش سے کہا ، بھیا میں چاہتا ہوں کہ تم میرے اچھے دوست بن جاؤ ۔
خرگوش نے ہنس کر کہا” ہاتھی صاحب ! ذرا اپنا جسم دیکھو اور مجھے دیکھو میں ایک چھوٹے سے بل میں رہتا ہوں تم میرے گھر نہیں آسکتے میری اور تمہاری دوستی نہیں ہوسکتی ۔ یہ کہہ کر خرگوش جلدی سے اپنے بل میں گھس گیا ۔ اداس ہاتھی ایک درخت کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسے جنگل کے سب جانور بھاگتے نظرآئے ۔ ہاتھی نے بھاگنے والے جانوروں سے پوچھا ․․․․․ آپ سب کہاں بھاگے جارہے ہیں؟ جانوروں نے کہا جنگل کا بادشاہ شیرآگیا ہے ۔
تم بھی جلدی بھاگوورنہ وہ تمہیں بھی چیرپھاڑڈالے گا۔
ہاتھی نے جب شیر کو دیکھا کہ وہ ہرن پر حملہ کررہا ہے تو اس نے شیر سے کہا ․․․․․ جنگل کے بادشاہ کیوں اس معصوم جانور پر حملہ کررہے ہو؟ شیر نے غصے سے ہاتھی کی جانب دیکھا اور بولا ․․․․․تم کون ہوتے ہو میرے کام میں مداخلت کرنے والے ۔ تمہاری اتنی جرات ، ٹھہرو میں ابھی تمہیں مزہ چکھاتا ہوں ۔
شیر یہ کہتے ہی ہرن کو چھوڑ کر دھاڑتے ہوئے ہاتھی کی طرف لپکا ۔ ہاتھی نے شیر کو اپنی سونڈ مار کر نیچے گرایا اور اپنی بھاری ٹانگ اس پر رکھ دی ۔ ہاتھی کے وزن سے تو شیر کی جان ہی نکل گئی ۔
شیر نے دل ہی دل میں سوچا ․․․․ ہاتھی مجھ سے زیادہ طاقتور ہے اس سے لڑنا جان گنوانے کے مترادف ہے ۔ وہ منمنانے کے انداز میں بولا : ہاتھی بھائی ! میں تو مذاق کررہا تھا۔ آپ تو مجھے مارہی ڈالیں گے کیا؟ میں وعدہ کرتا ہوں اب کسی کو نہیں ستاؤں گا ۔
ہاتھی نے اپنی ٹانگ اس پر سے اٹھالی۔ وہ ڈر کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ سب جانوروں نے ہاتھی کا شکریہ ادا کیا اور کہا ․․․․․ آج سے ہم سب آپ کے دوست ہیں کیونکہ آپ مصیبت میں ہمارے کام آئے اور دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے ۔
حاتم طائی اور غریب لکڑہارا
آج سے سینکڑوں برس پہلے عرب کے ایک قبیلے میں حاتم نامی شخص پیدا ہوا۔وہ اتنا سخی تھا کہ اس کی سخاوت کے قصے دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔اس کے دروازے پر جو شخص بھی آیا،اپنی ضرورت پوری کرکے گیا۔ کہتے ہیں اسے اپنے ایک گھوڑے سے بہت پیار تھا۔
گھوڑا بھی اپنے مالک کا وفادار تھا۔ایک روز آدھی رات کے قریب اس کے گھر میں چند مہمان آگئے۔اتفاق کی بات کہ اس وقت حاتم کے پاس اپنے مہمانوں کی دعوت کے لئے کچھ نہیں تھا اور رات کے وقت اس کا انتظام بھی بہت مشکل تھا۔حاتم طائی نے اپنا پسندیدہ گھوڑا ذبح کرکے مہمانوں کی دعوت کر ڈالی اور مہمان نوازی کی لاج رکھ لی۔ایک مرتبہ اس نے عرب کے سرداروں کی دعوت کی۔اس روز چالیس اونٹ ذبح کیے گئے۔دعوت ختم ہوئی،سردار آپس میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔
گفتگو حاتم طائی کی سخاوت کے متعلق ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سردار نے کہا”حاتم جیسا فراغ دل آج تک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہو گا۔“
”کیوں نہ یہ سوال حاتم سے کیا جائے․․․!“ایک سردار نے کہا۔۔۔۔۔۔چنانچہ حاتم سے پوچھا گیا کہ اس نے اپنے آپ سے زیادہ سختی اور عظیم انسان دیکھا یا سنا ہے․․․․؟حاتم کافی دیر تک سر جھکا کر سوچتا رہا اور پھر مسکرا کر بولا”بہت زیادہ مال و دولت لٹانے کا نام سخاوت نہیں۔
میرے نزدیک سخی اور عظیم انسان وہ ہے جو اپنے بڑے سے بڑے فائدے کے لئے،کسی کا چھوٹے سے چھوٹا احسان بھی قبول نہ کرے۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا شخص دیکھا جس کا دل میرے دل سے بہت بڑا تھا۔“۔۔۔۔۔۔۔”وہ ضرور کسی ملک کا بادشاہ ہو گا،جس کے پاس بہت بڑا خزانہ ہو گا۔
“سرداروں نے بیک آواز کہا۔” نہیں دوستو!ایسی کوئی بات نہیں۔“
حاتم طائی نے جواب دیا۔”وہ تو ایک لکڑہارا تھا۔“تمام سرداروں نے حیرت سے ایک میزبان کو دیکھا تو حاتم نے کہا کہ:”ایک روز میں نے سارے شہر کی دعوت کی،مہمانوں کو کھلانے پلانے کے بعد میں جنگل کی طرف نکل گیا۔وہاں میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا۔اس نے اپنے سر پر لکڑیوں کا ایک بھاری گٹھر اُٹھا رکھا تھا،جس کے بوجھ سے اس کی کمر جھکی جا رہی تھی۔اس کے پھٹے پرانے کپڑے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔میں نے ترس کھا کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا”بابا جی!میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
یہ کہہ کر میں نے اس کے سر سے بوجھ اتارنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے،تو وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔پھر اس نے اپنا بوجھ زمین پر رکھا اور کہنے لگا۔
”انسان کو اپنا بوجھ خود سنبھالنا چاہیے،لوگوں کے کاندھوں پہ سوار ہو کر تو صرف قبر کی طرف جایا جاتا ہے۔“
”مگر بابا جی!آپ اس عمر میں اتنی محنت کیوں کر رہے ہیں․․․؟“۔۔۔۔ ”تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے․․․․؟“اس غیرت مند لکڑہارے نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”آپ کے شہر میں حاتم طائی رہتا ہے۔وہ سینکڑوں انسانوں کو ہر روز کھانا کھلاتا ہے۔
آپ اس کے دروازے پر کیوں نہیں جاتے!“
یہ سن کرلکڑہارے نے گھور کر مجھے دیکھا اور بڑی بے نیازی سے کہا”حاتم کے دو ہاتھ ہیں،خدا نے مجھے بھی دو ہاتھ عطا فرمائے ہیں۔کتنے شرم کی بات ہے کہ میں اس کی کمائی ہوئی روٹی کھاؤں۔
کسی کا احسان اٹھانے سے بہتر ہے کہ میں بے جان لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھا لوں۔“
سب سردار حیران ہو کر حاتم کو دیکھنے لگے تو حاتم نے کہا”وہ غریب انسان مجھ سے بڑے دل کا مالک تھا۔“
پیارے بچو․․․․․!دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ سے رزق کمانا باعث عزت ہے۔