حوریہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا، اور اس کی نظریں زنیر کی وحشیانہ آنکھوں پر مرکوز تھیں۔ زنیر کی بدنظری نے حوریہ کو ہراساں کر دیا تھا، اور اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے وہ کسی انتہائی مشکل صورت حال میں پھنس گئی ہو۔

زنیر نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے پھر سے مسکرایا، اس کی مسکراہٹ میں زہر بھرا ہوا تھا۔ “ہاں ہے مجھ میں بہت زیادہ اکڑ۔۔۔ تو کیا کر لوں گے تم ذلیل انسان۔۔۔ مجھے ماروں گے۔۔۔ نہیں تم میں تو مجھے مارنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر تم مجھے مارو گے۔۔۔ تو تم کسے؟ اپنے ساتھی کاروباری مردوں کی کھیل بنا کر پراجیکٹ کما سکوں گے۔۔۔”

حوریہ نے زنیر کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے پیچھے قدم بڑھائے اور اس کے چہرے پر عزم و حوصلے کی جھلک برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ “تمہاری باتوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، زنیر۔” اس نے تیخے لہجے میں کہا۔

زنیر نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور پھر ناپسندیدہ ڈریس کی طرف اشارہ کیا جو بیڈ پر رکھا ہوا تھا۔ “بہت گرمی ہے نا تمہارے اندر؟ فکر مت کرو… میں نہیں تمہارا وہ نیا عاشق آج رات اتار لے گا۔ بس میری جان، تم خاموشی سے جا کر یہ خوبصورت ڈریس پہن کر آؤ۔” اس کے الفاظ میں ایک جھلک سی نمایاں تھی جو حوریہ کو اور بھی زیادہ پریشان کر رہی تھی۔

حوریہ نے بیڈ پر پڑے ہوئے ڈریس کی طرف گھوم کر دیکھا۔ وہ چھوٹا، بے ہودہ، اور بہت ہی کمزور لگ رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک شدید نفرت تھی، مگر اس نے زنیر کی گرفت کو توڑنے کی کوشش کی۔ اس کے پسینے نے اس کی کمر کو چمکایا، لیکن زنیر کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

“میں مرنا پسند کروں گی لیکن یہ تمہارا گھٹیا ترین ڈریس پہننا نہیں۔” حوریہ نے خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں کمر پر سے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔

زنیر نے اس کی باتوں کو نظرانداز کیا اور سنجیدگی سے کہا، “ڈارلنگ، واقعی میں مجھے تمہارے مرنے سے بہت زیادہ فرق پڑے گا۔ اس لیے تمہاری اس بات کو میں سیریس لیتے ہوئے اب خود تمہیں یہ ڈریس پہناؤں گا۔” یہ کہتے ہوئے اس نے ڈریس کو اٹھایا اور اسے اپنی طرف بڑھتے ہوئے کہا، “اب تم کوئی بہانہ نہیں بنا سکتی۔”

حوریہ کے دل میں ایک شدید خوف پیدا ہوا۔ اس نے زنیر کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں وہی سفاکیت دیکھی جو اسے اکثر دیکھنے کو ملتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ ابھی اس سے بچ کر نکل نہ سکی، تو اس کی زندگی مزید عذاب میں گزرے گی۔

زنیر نے ڈریس کو حوریہ کی طرف بڑھایا اور کہا، “اب کوئی بات نہیں، میری بات مانو، ورنہ جو کچھ ہوگا، تم اس کے ذمہ دار ہوگی۔”

حوریہ نے دل کی گہرائیوں سے کہا، “میں کبھی بھی اپنے وقار کو ایسے گھٹیا طریقے سے نہیں گرا سکتی۔” مگر زنیر نے اس کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے بیڈ پر دھکیل دیا اور ڈریس کو اس کے قریب لانے لگا۔

اب حوریہ کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا۔ اس نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا، اور اس بے رحمی سے لڑنے کی ٹھان لی۔ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اس ذلت کو برداشت نہیں کرے گی اور جو کچھ بھی کرنا پڑے، اس عذاب سے بچنے کی پوری کوشش کرے گی۔

زنیر نے حوریہ کی شکست خوردہ حالت کو دیکھا اور اس کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ آئی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی جیت کی کامیابی قریب ہے، لیکن حوریہ نے بھی اس کی وحشیانہ خوشی کو چیلنج کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اس کی روح کی طاقت اور عزم اب سب کچھ تبدیل کر سکتے تھے، اور شاید آج رات ہی سب کچھ بدل جائے گا۔