کہانیاں
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ
علی عباس | نام |
ششم | کلاس |
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ | سکول |
محنت میں عظمت کی کہانی
عاصم اور حیدر بہت اچھے دوست تھے۔ دونوں پڑھائی میں بہت تیز تھے۔کبھی عاصم کی فرسٹ پوزیشن آجاتی تو کبھی حیدر کی ۔ دونوں نے کبھی ایک دوسرے سے حسد محسوس نہیں کیا تھا۔ عاصم کا سکول اس کے گھر کے قریب تھا۔ لہٰذاوہ پیدل ہی آتا جاتا تھا۔ عاصم کے گھر کے راستے میں ایک آدمی اپنے طوطے کے ہمراہ فال لے کر بیٹھا ہوتا تھا۔ ایک دن عاصم نے سوچا کیوں نہ میں بھی اپنی ایک فال نکلواؤں لہٰذا عاصم اس طوطے والے آدمی کے پاس گیا۔ اس سے کہا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس بار سالانہ امتحان میں میری پوزیشن کونسی آئے گی ۔ اس نے کہا صاحب یہ طوطا آپ کو فال کے ذریعے بتا سکتا ہے ۔ اور یہ طوطا کبھی غلط فال نہیں نکالتا،اس فال کے ذریعے جو بھی نکلے گا بالکل ویسا ہی ہو گا۔
عاصم اس کی باتوں میں آگیا لہٰذا جب فال نکالی گئی تو عاصم سن کر حیران ہی رہ گیا کیونکہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس بارتم فیل ہو گے۔ یہ سن کر عاصم بہت پریشان ہوا۔ اس پریشانی کے عالم میں جب وہ گھر پہنچا تو عاصم کی امی اسے دیکھ کر حیران ہوئیں کیونکہ اس سے پہلے جب وہ گھر آتا تھا تووہ بہت ہنستا مسکراتا گھر میں داخل ہوتا تھا اور اپنی امی سے بہت گرم جوشی سے ملتا تھا جبکہ آج معاملہ اس کے برعکس تھا وہ بہت خاموش اور سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
عاصم کی امی نے بار بار پوچھا لیکن وہ ہر بار ٹال گیا۔ اب یہ تھا کہ عاصم جب بھی کتابیں کھول کر بیٹھتا تو یکسوئی سے کچھ بھی یادنہ کرپاتا۔ اس کا دل پڑھائی سے یکدم ہی اٹھ چکا تھا۔ اس نے سوچا جب میری قسمت میں اس بارفیل ہونا ہی لکھاہے تو اتنی محنت کا کیا فائدہ اس طرح سے عاصم نے پڑھائی میں دلچسپی لینا بالکل ہی چھوڑ دی۔ عاصم کے ٹیچرز اس کے پڑھائی کے متعلق کارکردگی پر بہت حیران ہوتے جارہے تھے۔ کیونکہ وہ دن بدن پڑھائی میں بہت کمزور ہوتا جارہا تھا۔ اس کا دوست حیدر بھی بہت پریشان تھا کہ آخر اس کو ہوا کیا ہے ایسا کیا مسئلہ ہے جو یہ پڑھائی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے آخر ایک دن حیدر نے عاصم سے اس قدر اصرار کیا کہ عاصم کو بتانا ہی پڑھا۔
سواس نے ساری بات حیدرکو گوش گزار کردی۔ حیدر عاصم کا بہت اچھا دوست تھا۔ سواس نے عاصم کو بہت مخلصانہ مشورہ دیا کہ تم اس آدمی کی بات کا ہر گزیقین مت کرو۔ بھلا ایک طوطا انسان کی قسمت کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے ۔تم دل لگا کر محنت کرو۔اللہ تعالیٰ محنت کرنے والے کو بہت پسند کرتا ہے اور محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پھل بھی ضرور عطا کرتا ہے ۔ لہٰذا تم دن رات اپنی توجہ پڑھائی پر لگادو۔دیکھنا پھر تمہاری پہلے ہی کی طرح پوزیشن بھی آئے گی ۔ عاصم پر حیدر کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے پھر پہلے کی طرح دن رات محنت کی اور جب سالانہ امتحانات کا نتیجہ تو عاصم کی فرسٹ پوزیشن آئی یہ دیکھ کر عاصم بہت خوش ہوا کہ اس کی تو فرسٹ پوزیشن آگئی ہے۔ تب اس کو احساس ہوا کہ واقع ہی محنت ہی کی بدولت انسان اپنی قسمت بدل سکتا ہے ۔ یہ قسمت کا فیصلہ سوائے اللہ کہ اورکوئی نہیں کر سکتا لیکن اس کے لئے محنت شرط ہے۔
دوست ہو تو ایسا
گاؤں کا رہنے والا سیدھا سادا شخص جس کا نام ٹیپو تھا،اس کی ایک عادت بہت اچھی تھی کہ وہ خود پر یقین رکھتاتھا اور ہر مشکل کام میں اپنی اس خوبی کی وجہ سے کامیاب ہو جاتا تھا۔ایک روز وہ یہ سوچ کر شہر میں اپنی روزی تلاش کرنے کے لیے آیا تھا کہ اگر شہر میں کوئی اچھی نوکری مل گئی تو اپنے گھر والوں کو بھی شہر بلا لوں گا۔
ٹیپو ایک محنتی لڑکا تھا اسے شہر میں رہتے ہوئے چار روز ہو گئے تھے۔پانچویں روز جب وہ ٹوٹی سڑک سے جارہا تھا تو اچانک کسی نے پیچھے سے آواز دی:”میاں !تھوڑا سا دھکا لگا دو گے۔“
ٹیپو نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک سفید داڑھی والے صاحب اپنی گاڑی کے پاس پریشان کھڑے تھے۔
انھوں نے ہی ٹیپو کو آواز دی تھی۔
ٹیپو نے دھکا لگا کر ان کی مدد کر دی۔انھوں نے ٹیپو کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا:”میاں کہاں سے آئے ہو شہر کے تو نہیں لگتے۔“
ٹیپو نے جواب دیا:”بڑے صاحب!میں احمد پور گاؤں سے شہر میں نوکری کی تلاش میں آیا ہوں۔
“بڑے صاحب نے پوچھا:”میاں !تم کتنا پڑھے ہو؟“ٹیپو نے کہا:”میں میٹر ک پاس ہوں۔“
انھوں نے اسے گاڑی میں بیٹھایا اور کہا کہ میرا ڈرائیور بہت زیادہ بوڑھا ہو گیا ہے اور اس کی نظر بھی کمزور ہو گئی ہے۔تم گاڑی چلا سکتے ہوتو کل سے میرے پاس آجاؤ۔
ٹیپو نے بتایا کہ مجھے گاڑی چلانا تو نہیں آتی پر آپ موقع دیں تو جلدی سیکھ جاؤں گا۔“
انھوں نے کہا:”ٹھیک ہے۔“وہ ٹیپو کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی گاڑی کی چابی اپنے نوکر کودی اور کہا کہ ٹیپو کو گاڑی چلانا سیکھا دو۔
وہ ان کا ڈرائیور تھا،مگر عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بڑے صاحب نے اسے گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے رکھ لیا تھا۔اب نوکر ٹیپو کو گاڑی سیکھانے کے لیے روز لے کر جاتا تو تھا،لیکن بجائے اسے گاڑی سیکھانے کہ باتوں میں اُلجھائے رکھتا ،کیوں کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی جگہ کوئی اور لے۔
اسی وجہ سے وہ ٹیپو کو دھیرے دھیرے ڈرانے بھی لگا کہ بہت مشکل کام ہے اگر کچھ خراب ہو گیا تو گاڑی خراب ہو جاتی ہے اور تنخواہ سے پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں اور کام سے بھی نکال دیتے ہیں۔ ٹیپوکواپنے آپ پر بھروسا تھا اور وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں تھا۔
ٹیپو جب بھی اس کے ساتھ گاڑی میں جاتا تو اسے خاموشی سے دیکھتا رہتا کہ گاڑی کیسے چلا تاہے۔ابھی دس روز گزرے ہی تھے کہ نوکر چھٹی لے کر گاؤں چلا گیا۔اب ٹیپو کچھ گھبرا رہا تھاکہ اکیلے گاڑی کیسے لے کر باہر جائے۔اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں کچھ ہو گیا تو نوکری بھی نہیں ملے گی۔
ٹیپو ابھی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ بڑے صاحب نے اسے آواز دی اور ایک ضروری کام سے پاس والی مارکیٹ میں چلنے کو کہا،پھر پوچھا:”میاں !تم گاڑی چلا لوں گے؟“
ٹیپو نے ہچکچاتے ہوئے جی جی کہا اور تھوڑی ہمت پیدا کی اور دھیرے دھیرے چلنا شروع کیا۔
بڑے صاحب چپکے چپکے مسکرارہے تھے ،کیونکہ وہ کوئی ضروری کام سے مارکیٹ نہیں جارہے تھے،بلکہ وہ صرف ٹیپو کا حوصلہ بڑھانا چاہتے تھے ۔ٹیپو دھیرے دھیرے انھیں واپس گھر بھی لے آیا۔بڑے صاحب بہت خوش ہوئے اور ٹیپو کی حوصلہ افزائی کی اور اسے بخشش بھی دی۔ٹیپو کو اپنے آپ پر یقین تھا کہ وہ یہ کام کر لے گا اور اس نے کر دکھایا۔اسی وجہ سے نوکری بھی مل گئی اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ شہر میں ہی بس گیا۔
حیدر علی کلاس ہفتم
گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاون لیہ
November 2021
Govt. Girls High School Chowk Azam (Layyah)
EMIS CODE: 32230033
STORY WRITER: SEHAR ANEES
CLASS: 9th
شہزادےکاجھوٹ:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سلطنت ہوتی تھی، جس میں ایک شہزادہ رہتا تھا۔ مگرشہزادے میں ایک بہت بری عادت تھی کہ وہ ہربات پر جھوٹ بولتا تھا۔ بادشاہ اورملکہ شہزادےکی ا س عادت سے پریشان تھےاور وہ شہزادے کی یہ عادت چھڑوانا چاہتے تھے۔ بادشاہ کے وزیر کو ایک ترکیب سوجھی۔ شہزادے کو اپنے والدین سےبہت پیار تھا۔ وہ ایک پل بھی ان کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اگلے دن جب بادشاہ اور ملکہ ایک ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے تو کچھ لوگوں نے انھیں شہزادے کے سامنے اغواہ کر لیا۔ شہزادہ بھاگا اور سب کو اس بارے بتایا، لیکن شہزادے کی جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے کسی نے بھی شہزادے کی بات کا یقین نہ کیا۔ شہزادہ رونے لگا اور وزیر سے کہا کہ اگر اس کے والدین کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار آپ سب لوگ ہوں گے۔ تو وزیر نے کہا کہ اس کے ذمہ دار ہم نہیں آپ خود ہوں گے۔ اگر آپ جھوٹ نہ بولتےہوتے توآج سب آپ کا یقین کرتے اور آپکے والدین آپکے ساتھ ہوتے۔ شہزادہ یہ سن کہ غمزدہ ہوگیا اور رونے لگا۔ شہزادے نے آئندہ جھوٹ بولنے سے توبہ کرلی۔ اتنے میں بادشاہ اور ملکہ، شہزادے کے سامنے آگے ۔ شہزادہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ بادشاہ نے شہزادے کو بتایا کہ ہم نے اسے سبق سکھانے کے لیے یہ سب کیا۔ تاکہ آپکی جھوٹ بولنے کی عادت چھوٹ سکے اور آپ کو علم ہوسکے کہ یہ عادت کتنی خطرناک ہے۔
نتیجہ:
کبھی جھوٹ مت بولو۔
خونی جھیل
ایک زمانے میں جنگل میں ایک جھیل تھی۔ جو خونی جھیل کے نام سے مشہور تھی۔ شام ہونے کے بعد کوئی اس جھیل میں پانی پینے نہیں جاتا تھا۔ ایک دن چنوں ہرن اس جنگل میں رہنے کے لئے آئے تھے۔
جنگل میں اس کی ملاقات جگو بندر سے ہوئی۔ جگو بندر نے چنوں ہرن کو جنگل کے بارے میں سب بتایا لیکن اس جھیل کے بارے میں بتانا بھول گیا۔ جگو بندر نے دوسرے دن جنگل کے تمام جانوروں سے چنوں ہرن کا تعارف کرایا۔
جنگل میں چنوں ہرن کا سب سے اچھا دوست چیکو خرگوش بن گیا۔ جب چنوں ہرن کو پیاس لگی تو وہ اس جھیل میں پانی پیتا تھا۔ وہ شام کو بھی پانی پیتا تھا۔
ایک شام جب وہ اس جھیل میں پانی پینے گیا تو جیسے ہی وہ پانی میں منہ ڈالنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر ایک مگر مچھ پر پڑی جو بہت تیزی سے اس کی طرف چلتا آرہا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ جلدی سے جنگل کی طرف دوڑا۔ راستے میں اسے جگو بندر مل گیا۔
جگو چنوں ہرن سے اتنی تیزی سے بھاگنے کی وجہ پوچھتا ہے۔ چنوں ہرن نے اسے ساری بات بتا دی۔ جگو بندر نے کہا کہ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ یہ ایک خوبصورت جھیل ہے لیکن شام کہ وقت یہ انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے۔ جو شام کے بعد جھیل پر جاتا ہے واپس نہیں آتا ہے۔
جگو فورا سے بولا لیکن اس جھیل میں مگرمچھ کیا کر رہا ہے۔ ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ مگرمچھ تمام جانوروں کو کھاتا ہے، جو شام کے بعد جھیل میں پانی پینے آتا ہے۔
اگلے دن جگو بندر جنگل کے تمام جانوروں کو لیکر اس جھیل پر گیا۔ مگرمچھ نے تمام جانوروں کو آتا دیکھ کر خود کو چھپا لیا۔ لیکن مگرمچھ کی کمر اب بھی پانی کے اوپر دکھائی دے رہی تھی۔
سب جانوروں نے بتایا کہ جو چیز پانی کے باہر نظر آتی ہے وہ مگرمچھ ہے۔ یہ سن کر مگرمچھ نے کچھ نہیں کہا۔ چیکو خرگوش نے اپنے تیز دماغ سے سوچا اور کہا کہ یہ کوئی پتھر نہیں ہے۔ لیکن ہم اسے تبھی قبول کریں گے جب یہ خود بتائے گا۔
یہ سن کر مگرمچھ نے کہا کہ میں ایک پتھر ہوں۔ تمام جانوروں کو معلوم ہوا کہ یہ مگرمچھ ہے۔ چیکو خرگوش نے مگرمچھ کو بتایا کہ تمہیں یہ تک نہیں معلوم کہ پتھر بھی نہیں بولتے ہیں۔ اس کے بعد ، تمام جانوروں نے مل کر مگرمچھ کو اس جھیل سے نکالا اور خوشی خوشی زندگی گزارنا شروع کیا۔
کہانی کا اخلاقی سبق
اس کہانی سے ، ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اگر ہمیں بغیر کسی خوف کے ایک ساتھ کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو ہم اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
__________________________________________________________________________
رانا محمد اویس کلاس ہشتم
گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاوّن لیہ
سنہری انڈا
بہت پہلے، ایک گاؤں میں علی نامی شخص رہتا تھا۔ اس کے والدین کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ کھیتوں میں سخت محنت کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک مرغی تھی۔ جو اسے روزانہ ایک انڈا دیتی تھی۔
جب اس کے پاس کبھی کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا تو وہ رات کو اپنی مرغی کا انڈا کھا کر سوتا تھا۔ باسا نامی شخص اس کے پڑوس میں رہتا تھا۔ جو صحیح شخص نہیں تھا۔
جب اس نے دیکھا کہ علی اچھا کام کر رہا ہے تو یہ بات اسے حزم نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے علی کا مرغی چرانے کا فیصلہ کیا۔ جب علی گھر پر نہیں تھا۔اس نے مرغی کو چرایا اور پکالیا۔ جب علی گھر آیا اور مرغی کو گھر میں نہیں دیکھا تو اس نے اپنی مرغی کی تلاش شروع کردی۔
اس نے باسا کے گھر کے باہر مرغی کے کچھ پنکھ دیکھے تھے۔ جب اس نے باسا سے بات کی تو باسا نے بتایا کہ اس کی بلی نے ایک مرغی پکڑی ہے۔ میں نے اسے پکایا اور کھایا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ کی مرغی تھی
علی نے باسا کو کہا کہ میں تمہاری شکایت سردار سے کروں گا۔ یہ سن کر باسا نے علی کو مرغی کی جگہ ایک چھوٹی سی بطخ دے دی۔ علی نے اس بطخ کی پرورش کی جس سے کچھ دن بعد بطخ بڑی ہوگئی اور انڈے دینے لگی۔
ایک رات جب بارش ہو رہی تھی۔ ایک راہگیر باسا کے گھر رہنے کے لئے جگہ مانگنے آیا۔ لیکن باسا نے اسے صاف انکار کردیا۔ اس کے بعد وہ علی کے گھر گیا۔ علی نے اسے رہنے کی جگہ دی اور کھانا بھی کھلایا۔
اگلی صبح وہ علی کے گھر سے نکلنے لگا تو اس کی نظر علی کی بطخ پر پڑی۔ تو اس نے کچھ پڑھ کر بطخ کر پھونکا۔ اس کے بعد، جب بطخ نے انڈا دیا، وہ سونے کا تھا۔ علی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
اب جب بھی بطخ انڈا دیتی تو وہ سونے کا ہوتا۔ سونے کے انڈے بیچ کر علی کی تمام غربت دور ہوگئی۔ لیکن پھر بھی وہ ایک عام زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن ، باسا نے بطخ کو سنہری انڈا دیتے ہوئے دیکھا اور سردار کے پاس گیا۔
اس نے سردار کو بتایا کہ علی نے میری بطخ چوری کی۔ جب سردار نے علی سے پوچھا تو اس نے ساری کہانی اس کے بارے میں بتائی کہ باسا نے اسے کس طرح بطخ دی۔ سردار نے کہا کہ میں کل فیصلہ کروں گا کہ بطخ کسے ملے گی۔
ہر بار کی طرح اس روز سردار کو سنہری انڈا دیا تھا۔ اگلے دن سردار نے ان دونوں کو نارمل انڈا دکھایا اور علیحدہ علیحدہ پوچھے جانے پر ، علی نے جج کو بتایا کہ اس کی بطخ سنہری انڈا دیتی تھی۔جبکہ باسا نے بتایا کہ اس کی بطخ عام انڈے دیتی ہے۔ سردار نے ایک نیا بطخ لیا اور باسا کو دے دیا۔ اور علی کو اس کی بطخ واپس کر دی۔ علی اپنی بطخ کو پا کر بہت خوش ہوا اور اس کسے سنہری انڈوں کو بیچ بیچ کر کافی امیر ہوگیا۔
نتیجہ :
ہمیں کبھی بھی لالچ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے اور دوسروں سے حسد نہیں کرنا چاہئے۔
محمد بالاج حیدر کلاس نہم
گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاوّن لیہ
32230074
GHS CHAK NO.110/TDA LAYYAH
MUHAMMAD ISHFAQ AHMED | نام |
7TH | کلاس |
GHS CHAK NO.110/TDA | سکول |
محنت میں عظمت کی کہانی
عاصم اور حیدر بہت اچھے دوست تھے۔ دونوں پڑھائی میں بہت تیز تھے۔کبھی عاصم کی فرسٹ پوزیشن آجاتی تو کبھی حیدر کی ۔ دونوں نے کبھی ایک دوسرے سے حسد محسوس نہیں کیا تھا۔ عاصم کا سکول اس کے گھر کے قریب تھا۔ لہٰذاوہ پیدل ہی آتا جاتا تھا۔ عاصم کے گھر کے راستے میں ایک آدمی اپنے طوطے کے ہمراہ فال لے کر بیٹھا ہوتا تھا۔ ایک دن عاصم نے سوچا کیوں نہ میں بھی اپنی ایک فال نکلواؤں لہٰذا عاصم اس طوطے والے آدمی کے پاس گیا۔ اس سے کہا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس بار سالانہ امتحان میں میری پوزیشن کونسی آئے گی ۔ اس نے کہا صاحب یہ طوطا آپ کو فال کے ذریعے بتا سکتا ہے ۔ اور یہ طوطا کبھی غلط فال نہیں نکالتا،اس فال کے ذریعے جو بھی نکلے گا بالکل ویسا ہی ہو گا۔
عاصم اس کی باتوں میں آگیا لہٰذا جب فال نکالی گئی تو عاصم سن کر حیران ہی رہ گیا کیونکہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس بارتم فیل ہو گے۔ یہ سن کر عاصم بہت پریشان ہوا۔ اس پریشانی کے عالم میں جب وہ گھر پہنچا تو عاصم کی امی اسے دیکھ کر حیران ہوئیں کیونکہ اس سے پہلے جب وہ گھر آتا تھا تووہ بہت ہنستا مسکراتا گھر میں داخل ہوتا تھا اور اپنی امی سے بہت گرم جوشی سے ملتا تھا جبکہ آج معاملہ اس کے برعکس تھا وہ بہت خاموش اور سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
عاصم کی امی نے بار بار پوچھا لیکن وہ ہر بار ٹال گیا۔ اب یہ تھا کہ عاصم جب بھی کتابیں کھول کر بیٹھتا تو یکسوئی سے کچھ بھی یادنہ کرپاتا۔ اس کا دل پڑھائی سے یکدم ہی اٹھ چکا تھا۔ اس نے سوچا جب میری قسمت میں اس بارفیل ہونا ہی لکھاہے تو اتنی محنت کا کیا فائدہ اس طرح سے عاصم نے پڑھائی میں دلچسپی لینا بالکل ہی چھوڑ دی۔ عاصم کے ٹیچرز اس کے پڑھائی کے متعلق کارکردگی پر بہت حیران ہوتے جارہے تھے۔ کیونکہ وہ دن بدن پڑھائی میں بہت کمزور ہوتا جارہا تھا۔ اس کا دوست حیدر بھی بہت پریشان تھا کہ آخر اس کو ہوا کیا ہے ایسا کیا مسئلہ ہے جو یہ پڑھائی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے آخر ایک دن حیدر نے عاصم سے اس قدر اصرار کیا کہ عاصم کو بتانا ہی پڑھا۔
سواس نے ساری بات حیدرکو گوش گزار کردی۔ حیدر عاصم کا بہت اچھا دوست تھا۔ سواس نے عاصم کو بہت مخلصانہ مشورہ دیا کہ تم اس آدمی کی بات کا ہر گزیقین مت کرو۔ بھلا ایک طوطا انسان کی قسمت کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے ۔تم دل لگا کر محنت کرو۔اللہ تعالیٰ محنت کرنے والے کو بہت پسند کرتا ہے اور محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پھل بھی ضرور عطا کرتا ہے ۔ لہٰذا تم دن رات اپنی توجہ پڑھائی پر لگادو۔دیکھنا پھر تمہاری پہلے ہی کی طرح پوزیشن بھی آئے گی ۔ عاصم پر حیدر کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے پھر پہلے کی طرح دن رات محنت کی اور جب سالانہ امتحانات کا نتیجہ تو عاصم کی فرسٹ پوزیشن آئی یہ دیکھ کر عاصم بہت خوش ہوا کہ اس کی تو فرسٹ پوزیشن آگئی ہے۔ تب اس کو احساس ہوا کہ واقع ہی محنت ہی کی بدولت انسان اپنی قسمت بدل سکتا ہے ۔ یہ قسمت کا فیصلہ سوائے اللہ کہ اورکوئی نہیں کر سکتا لیکن اس کے لئے محنت شرط ہے۔
GHS CHAK NO.110/TDA
HAIDER ALI | نام |
EIGTH | کلاس |
GHS CHAK NO.110/TDA | سکول |
چڑیا کی تین نصیحتیں
ایک شخص نے چڑیاپکڑنے کے لئے جال بچھایا۔ اتفاق سے ایک چڑیااس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑلیا۔ چڑیا نے اس سے کہا۔ آئے انسان! تم نے کئی ہرن‘ بکرے اورمرغ وغیرہ کھاتے ہیں ، ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیاحقیقت ۔ ذراسا گوشت میرے جسم میں ہے اس تمہارا کیابنے گا؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا۔ لیکن اگرتم مجھے آزادکودوتو میں تمہیں تین نصیحتیں کروں گی جن پرعمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا۔ ان میں سے ایک نصیحت تومیں ابھی کروں گی۔
جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑدو گے اور میں دیوار پرجابیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوارسے اڑکرسامنے درخت کی شاخ پرجا بیٹھوں گی۔ اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ھوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے؟
اس نے چڑیاکی بات مانتے ہوئے اس سے پوچھا۔ تم مجھے پہلی نصیحت کرو‘ پھر میں تمہیں چھوڑدوں گا۔ چنانچہ چڑیانے کہا۔ میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ جوبات کبھی نہیں ہوسکتی اس کا یقین مت کرنا۔ یہ سن کراس آدمی نے چڑیا کوچھوڑدیا اور وہ سامنے دیوار پرجابیٹھی پھربولی۔ میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جو ہوجائے اس کاغم نہ کرنا اور پھر کہنے لگی۔ اے بھلے مانس تم نے مجھے چھوڑ کربہت بڑی غلطی کی۔ کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھرکا انتہائی نایاب پتھرہے۔ اگرتم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تواس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تم بہت بڑے رئیس بن جاتے ۔
اس شخص نے جویہ بات سنی تولگا افسوس کرنے۔ اور پچھتایاکہ اس نے چڑیاکوچھوڑ کراپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی۔ اگر اسے نہ چھوڑتا تومیری زندگی سنورجاتی۔ چڑیا نے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھاتواڑکردرخت کی شاخ پرجا بیٹھی اور بولی۔ اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے توبھول گئے کہ جوبات نہ ہوسکنے والی ہواس کا ہرگزیقین نہ کرنا۔ لیکن تم نے میری اس بات کااعتبار کرلیا کہ میں چھٹانک بھروزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤوزن کاموتی رکھتی ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جوبات ہوجائے اس کاغم نہ کرنا۔ مگرتم نے دوسری نصیحت کابھی کوئی اثر نہ لیااور غم وافسوس میں مبتلا ہوگئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا۔
تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بلکل بے کارہے۔ تم نے میری پہلی دونصیحتوں پرکب عمل کیا؟ جوتیسری پرکرو گے۔ تم نصیحت کے قابل نہیں۔ یہ کہتے ہوئے چڑیاپھرسے اڑی اور ہوامیں پرواز کرگئی۔ وہ شخص وہیں کھڑا چڑیا کی باتوں پرغور وفکر کرتے ہوئے سوچوں میں کھوگیا۔
وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والاہو۔ ہم اکثر اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پرکان نہیں دھرتے اور اس میں نقصان ہماراہی ہوتا ہے۔ یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں ہوتی بلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں۔ جو ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں اگرہم ان پرعمل کریں۔