یادوں کی باندھی ہوئی بستی میں

یادوں کی باندھی ہوئی بستی میں، جہاں ہر گلی میں محبت کی خوشبو بکھری تھی، وہاں دو دل ایک دوسرے کی بقا کے لئے لڑ رہے تھے۔ وہ ایک وقت تھا جب ان کی دنیا محبت کی روشنی سے چمک رہی تھی، لیکن اب اس روشنی کی جگہ تاریکی نے لے لی تھی۔

علی اور مریم، دو ایسے نام جو کبھی ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن بنے تھے، اب ایک دوسرے سے لاتعلق ہو چکے تھے۔ ان کی محبت کی داستان ایک زمانے میں ہر زبان پر تھی، لیکن اب ان کی کہانی صرف ماضی کے صفحات پر باقی رہ گئی تھی۔

ایک دن، علی اور مریم ایک ایسی جگہ پر ملے جہاں پر ان کی ملاقاتیں پہلے بھی ہوچکی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، مگر آنکھوں میں وہی پرانا خمار نہیں تھا۔ یہ نیا وقت تھا، اور دونوں کی زندگیوں میں نیا راستہ تلاش کر رہے تھے۔

علی نے کہا، “ہماری محبت کی کہانی اب ماضی کی بات بن چکی ہے۔”

مریم نے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا، “ہاں، لیکن ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جب دوستیاں ختم ہوتی ہیں، تو بیر بھی ختم ہو جاتا ہے۔”

دونوں نے محسوس کیا کہ محبت کی روشنی جو کبھی ان کی زندگی کا حصہ تھی، اب مدھم ہو چکی ہے۔ محبت کے بجائے اب ان کے درمیان ایک اور جذبات کا طوفان تھا، جو کبھی عدم تفہیم اور کبھی ضد کی شکل میں سامنے آتا تھا۔

علی نے غمگین لہجے میں کہا، “اب ہم ایک دوسرے سے دور ہیں، لیکن تمہیں سمجھنا ہوگا کہ تم اور میں، دونوں ہی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔”

مریم نے تاسف کے ساتھ کہا، “یہ سچ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لیکن میں چاہتی ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھے بغیر، محبت اور خیر کے تقاضے نہ مانگیں۔”

دونوں نے اپنے دلوں کی گہرائیوں میں جھانکتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ ایک دوسرے سے کسی بھی قسم کا ربط نہ رکھیں۔ محبت کا جو رنگ پہلے چمکتا تھا، اب اس کی جگہ ایک سادگی نے لے لی تھی۔ وہ جان چکے تھے کہ محبت اور خیر کا مطالبہ کرنے کی بجائے، انہیں اپنے راستے الگ کرنا چاہئے تاکہ دونوں کی زندگیوں میں سکون کا کوئی نیا رنگ آ سکے۔

یہ کہانی ایک اختتام پر پہنچی، جہاں علی اور مریم نے اپنی زندگیوں میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی محبت کی کہانی ختم ہو چکی تھی، لیکن ان کے دلوں میں جو یادیں باقی تھیں، وہ ہمیشہ ایک خوبصورت تجربے کی صورت میں زندہ رہیں گی۔