سٹوڈنٹ آرٹیکلز 2023

0
سٹوڈنٹ

جب آپ دل سے اپنے رب سے محبت کرتے ہیں تو

وہ آپ کے دل میں انہیں لوگوں کو رہنے دیتا ہے

جو آپ کی محبت کے اہل ہیں۔

غلطی ماننے اور گناہ چھوڑنے میں دیر نہ کریں کیونکہ

سفر جتنا طویل ہوجائے گا واپسی اتنی ہی دشوار ہوگی۔

جو انسان جتنا خاموش رہتا ہے

وہ اپنی عزت کو اتناہی محفوظ رکھتا ہے۔

گورنمنٹ گرلز ہائ سکول کوٹ سلطان لیہ

کلاس ھشتم بی

حجاب عزیز

گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاؤن لیہ 32230074

________________________

بچے اور والدین

ایک اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کو اس کے لئے ڈھال بنایا ہے ۔بچوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کئے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ اولاد بھی اپنے والدین کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اگر اولاد نیک ہوتو والدین کیلئے سونا چاندی بن جاتے ہیں اور اگر نیک نہ ہوں تو وہی اولاد اپنے والدین کے لئے وبال جان بن جاتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لئے بھی جو حقوق وفرائض طے کئے ہیں وہی حقوق اولاد کے لئے بھی مقرر کئے گئے ۔

اگر اولاد والدین کیلئے سادہ اور سلجھی ہوئی ثابت ہوتی ہے تو والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کے لئے ویسا ہی طریقہ کار اپنائیں جیسا کہ اس نے اولاد کے لئے مختص کئے ۔والدین اور بچوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتاہے ۔

اگر اولاد میں سے کوئی ایک بچہ بھی بیمار پر جاتاہے تو والدین کے لئے یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اس کا بچہ بیمار ہوا اور کیسے صحت یاب ہو گا۔اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں افراد بیمار پڑ جائیں تو اولاد اس تک ودو میں لگ جاتی ہے کہ کیسے وہ اپنے والدین کی صحت کا تدارک کریں گے ۔

جو بچے اپنے ماں باپ کے لاڈلے ہوتے ہیں وہ ہر دم اپنے امی ابو کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ !ہمارے پیارے امی ابو کو ٹھیک کردے ۔ان کی بیماری کو دور کر دے اور انہیں واپس صحت کی طرف لوٹا دے ۔اسی طرح اگر بچے بیمار پڑ جائیں تو ان کے والدین اس خواہش کا ورد کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اے اللہ تعالیٰ تیرے کرم سے ہمارے بچے کو جلد از جلد واپس صحت کی طرف پہنچادے ۔

اللہ تعالیٰ نے اولاد پر اللہ تعالیٰ کے حقوق مقرر کئے ہیں ۔ان کا تقاضا یہ ہے کہ بچے بغیر کسی تاخیر کے اپنے ماں باپ کا علاج کروائیں چاہے انہیں اتنے ہی پاپڑبیلنے پڑ جائیں ۔اولاد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے والدین جیسی انمول چیز کا دھیان اپنی طرف رکھے اور جسے ہی دیکھے کہ ان کے والدین نقاہت اور کمزوری محسوس کر رہے ہیں اور ان سے اچھی طرح چلا پھرانہیں جاتا تو وہ مکمل علاج کے لئے قریبی علاج کا دلے جائیں اور اپنے ماں باپ کا علاج معالجہ کرائیں۔

محمد فرحان کھرل

کلاس دہم جناح

School Name: GGHS 164-A/TDA Layyah

Emis Code: 32230113

Artist: Eisha Fatima Class 9th

School Name: GGHS 164-A/TDA Layyah

Emis Code: 32230113

Artist: Eisha Fatima Class 9th

School Name: GGHS 164-A/TDA Layyah

School Name: GGHS 164-A/TDA Layyah

Emis Code: 32230113

Artist: Eisha Fatima Class 9th

School Name: GGHS 164-A/TDA Layyah

Emis Code: 32230113

Artist: Eisha Fatima Class 9th

 

 

گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاؤن لیہ 32230074

__________________________________

کر بھلا ہو بھلا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نر مر چکا تھا۔وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاؤ گی۔

اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے پاس ایک انڈا تھا۔اسے ڈر لگا کہ اگر میں مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس کے خول سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا۔لہٰذا وہ اپنے سب دوستوں کے پاس گئی جو جنگل میں رہتے تھے۔

اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔بیچاری بطخ نے ان کی کافی منتیں کیں کہ خدا کے لئے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنا سایہ دینا لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔۔۔۔۔بیچاری بطخ بھی کیا کرتی۔

اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں،وہ ضرور میری مدد کرے گا لہٰذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا۔مرغ بھائی!آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو پلیز آپ ہی میرے بچے کو اپنا سایہ دینا۔مرغا بولا!میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی لہٰذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لہٰذا تم مجھے معاف کر دینا۔

بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔اس کے بعد بطخ کی طبیعت اور بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ اس کی موت ہو گئی۔جب مرغی کے بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔مرغ تو سب جان گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی:”میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا“۔مرغ نے اسے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا۔

مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ بطخ کے بچے سے کسی کو بات نہیں کرنی ہے۔سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ جو خود کھاتے تھے۔اپنے ساتھ اس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی،وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔

ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے۔ہم سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی۔وہ لوگ سیر کو نکلے۔وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔

یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہٰذا اس نے فوراً دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور اس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔مرغی نے جب یہ دیکھا تو اسے اپنے کئے پر کافی شرمندہ ہوئی اور اس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

دیکھا بچو!کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کے بچے کو بچایا اور کیسے اس کا بھلا ہوا۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا ہو بھلا۔

عمر گل ولد گل جہان بودلہ کلاس دوم

جون عباس کلاس ششم

نبی کریم ﷺ کا بچپن

گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاؤن لیہ

شعیب کی امی کی بے چینی دیکھ کر اسکی دادی نے پوچھ ہی لیا کہ بیٹی کیوں بے چین ہورہی ہو مجھے بتاؤ کیا پریشانی ہے؟ امی شعیب مغرب کی نماز پڑھنے مسجد گیا تھا ابھی تک لوٹا نہیں ہے اب تک اسے واپس آجانا چاہیے تھا مجھے پریشانی ہورہی ہیں سوچ رہی ہوں کہ خود مسجد تک چکر لگا آؤں۔

بیٹا ابھی دس منٹ اور انتظار کرلو ممکن ہے آتا ہی ہو شعیب کی دادی نے آسکی امی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔اس دوران دروازے پر بیل بجی تو وہ سمجھ گئیں کہ دروازے پر شعیب ہی ہے وہ بھاگ کر گئیں نجانے انہیں کیوں بے چینی ہورہی تھی حالانکہ وہ ہر روز مغرب اور عشاء کی نماز مسجد پڑھنے جاتا تھا گھر میں داخل ہوتے ہی اس پر سوالات کی بوچھاڑ ہوگئی،اتنی دیر سے کہا ں تھے وغیرہ وغیرہ؟ماما مغرب کی نماز کے بعد مولوی صاحب اور دوسرے کئی لوگ مسجد کی چھت پر ربیع الاول کا چاند دیکھنے چلے گئے تھے میں بھی ان کے ساتھ ہولیا چاند دیکھ کر سب نے دعا مانگی اور پھر میں گھر کو واپس آگیا مجھے پندرہ بیس منٹ زیادہ لگے ہیں ،آپ ایسے ہی پریشان ہورہی تھیں۔

ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو دراصل میں بھی بھول گئی تھی کہ آج ربیع الاول کا چاند نکلے گا میں بھی چھت پر جاکر ابھی چاند دیکھتی ہوں۔نہیں ماما اب چاند نہیں ہے جب ہم لوگ چاند دیکھ رہے تھے تو وہ اسی وقت غروب ہوگیا تھا اچھا چلو میں دعا تو کرلوں دراصل ربیع الاول کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی تھی اسی دروان انکی دادی بھی ان کے پاس پہنچ گئیں وہ ان کی ساری گفتگو سُن چکی تھیں۔

دونوں خواتین نے وہیں قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعا کیلیے ہاتھ اٹھادئیے،شعیب نے بھی رسما ہاتھ اٹھا دئیے اور آمین کہتا رہا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکی دادی گویا ہوئیں،“بیٹا شعیب تمہیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے رسول کریمﷺ کی ولادت حضرت آدم علیہ السلام کے تقریباً چھ ہزار سال بعد ہوئی تھیں،اُس وقت انسانوں میں اچھے اور بُرے کی تمیزکا احساس خاصا بہتر ہوچکا تھا مگر پھر بھی عرب کے لوگ بت پرستی میں لگے ہوئے تھے ان کے اخلاق بھی بہت اچھے نہیں تھے۔

یہ لوگ چھوٹی چھوٹی اور درگزر کردینے والی باتوں پر بھی لڑتے مرتے تھے مثلاً ایک قبیلے کے لوگوں نے اپنے جانور کو دوسرے قبیلے کے جانوروں سے پہلے پانی کیوں پلادیا اسی بات پر ایسی جنگیں ہورہی تھیں کہ دونوں اطراف سے لوگ مررہے تھے یہ لوگ لڑکوں کی پیدائش پر تو بہت خوش ہوتے تھے مگر کسی لڑکی کی پیدائش پر ان کے ہاں صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی اور اکثر لوگ تو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن کردیتے تھے اور اس پر انہیں کوئی خوف یا شرمندگی بھی نہیں ہوتی تھی،خانہ کعبہ کے اندر سینکڑوں بت رکھے ہوئے تھے اور یہ لوگ ایک اللہ کو چھوڑ کر ان بتوں پر چڑھاوے چڑھایا کرتے تھے،یمن کے ایک بادشاہ ابراہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ کرلیا تھا اور اپنے اس ارادے کو عملی شکل دینے کے لئے ہاتھیوں کا غول لے کر مکہ تک پہنچ گیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسکے ناپاک ارادے ننھے منے پرندوں کے ہاتھوں خاک میں ملادئیے۔

آپﷺ کی ولادت اُس عظیم سانحہ کے چندماہ کے بعد ہوئی کہا جاتا ہے کہ جب آپﷺ کی پیدائش ہوئی تو اُس وقت کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو عام زندگی میں رونما نہیں ہوتے،سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپﷺ کی ولادت کے وقت آگ کی عبادت کرنے والوں کی کئی سالوں سے جلتی ہوئی آگ بجھ گئی ،ایران کے شاہی محل میں زلزلہ آیا اور اسکے عظیم الشان مینارے زمین بوس ہوگئے۔

کعبہ کے اندر رکھے بت جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے بھی زمین بوس ہوگئے۔آپﷺ کے والد جن کانام حضرت عبداللہ تھا اور وہ اپنے باپ حضرت عبدالمطلب کے دسویں بیٹے تھے،آپﷺ کی ولادت سے پہلے ہی ہی فوت ہوچکے تھے آپﷺ کی ولادت کی خبر سن کر دادا حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ میں جاکر سجدہ ریز ہوگئے آپﷺ کے چچا عبدالمطلب نے اس خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو اپنا دودھ پلانے کا حکم دیا اور اس خوشی میں اسے آزاد بھی کردیا۔

رسول کریمﷺ کے نبوت کے اعلان کے بعد ابولہب نے ہی آپﷺ کی سب سے زیادہ مخالفت کی۔ بعد میں حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو دودھ پلانے کے لیے اپنے گاؤں لے گئیں۔اُس وقت عرب اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں امراء کا دستوریہی تھا کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کسی صحت افزا مقام پر بھیج دیا کرتے تھے ۔

حضرت حلیمہ سعدیہ کا کہنا ہے کہ جب وہ آپﷺ کو لے کر اپنے گاؤں کی طرف جارہی تھیں تو ان کی سواری جو پہلے بہت سست رفتاری سے چل رہی تھیں سبک رفتاری سے چلنے لگی اور اس نے ان کے پورے قافلے کو پیچھے چھوڑ دیا اس وقت ان کا گاؤں قحط سالی کا شکار تھا مگر آپﷺ کے آجانے سے وہاں بھی بہار آگئی تھی ان کی بکریاں جو کہ پہلے دودھ نہیں دے رہی تھیں پھر سے بھرپور طریقے سے دودھ دینے لگیں دو سال تک وہ آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور آپْﷺ کی برکت سے ان کا اپنا بچہ بھی پیٹ بھر کر دودھ پیتا رہا دو سال کے بعد جب وہ آپﷺ کو لے کر واپس مکہ آئیں تو آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا آپﷺ کی عمر ابھی چھ سال ہوئی ہوگی کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ پاگئیں تو آپ ﷺ کی پرورش کی ذمہ داری آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب پر آگئی وہ بھی دو برس بعد وفات پاگئے تو چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ اُٹھالیا آپ ﷺ کی جوانی بھی ایسی شاندار تھی کہ پورے عرب میں اسکی مثال نہیں ملتی آپﷺ کے اچھے اخلاق اور کردار کی ہر شخص ضمانت دیتا تھا اسی لئے آپﷺ کو صادق و امین کہا گیا۔

دادی جان اُسی وقت جبکہ ہر طرف لوگ شرک یعنی بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے توہمارے رسولﷺ پھر بھی ایک ہی اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔شعیب نے اپنی علمیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ہاں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہوں آپﷺ بچپن اور جوانی میں بھی مراسم شرک سے اجتناب کرتے تھے ایک مرتبہ جبکہ آپﷺ بہت کمسن تھے۔

آپﷺ کے قبیلے کے لوگ آپﷺکو ایک دیوی کے استھان پر لے گئے وہ لوگ اپنی رسومات کرتے رہے مگر آپﷺ نے ان کی تقلید میں کوئی بھی کام نہیں کیا۔رضاعت کے دور میں آپﷺ اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بنو سعد کے قبیلے میں بکریاں چرانے چلے جاتے تھے رضاعت کے بعدجب آپﷺ اپنے دادا کے گھر آگئے تو اپنے ہم عمر کزنز کے ساتھ چلے جایا کرتے تھے آپﷺ جب کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو”بسم اللہ“ کہہ کر شروع کرتے اور کھانا ختم کرنے کے بعد”الحمد اللہ“ کہتے۔

آپﷺ بچپن سے ہی بہت قناعت پسند تھے جب آپﷺ حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کے گھر شریک طعام ہوتے تو سب کے پیٹ بھرجاتے اس لئے انہوں نے اپنے بیٹوں کو تاکید کردی تھی کہ جب بھی کھانا کھانے بیٹھوتو اپنے بھائی محمدﷺ کو ضرور شریک کرلیا کرو۔

حضرت ابو طالب کاکہنا ہے کہ آپﷺ بچپن سے ہی بہت سنجیدہ تھے کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کبھی کسی کی عیب جوئی کی آپﷺ کی چچی ابو طالب کی بیوی فاطمہ بنت اسد بھی آپﷺ کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں۔آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ آپ کے ہم عمر تھے جبکہ دوسرے چچا عباس بن عبدالمطلب آپﷺ سے دو سال ہی بڑے تھے آپﷺ ان کے ساتھ مل کر فن حرب سیکھا کرتے تھے یعنی جنگی ترتیب لیتے تھے۔

جب آپﷺ کی عمر بارہ برس ہوئی تو آپﷺ اپنے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تجارت کے غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔یہ تجارتی قافلہ کئی جگہوں پر پڑاؤکرتا ہوا شام کے سرحدی شہربصریٰ میں ایک عیسائی عبادت گاہ کے سامنے پہنچا تو وہاں کے راہب بحیرا نے حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ سے کہا تم لوگ گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ کے لئے جھکا نہ ہو اور ایسا کسی نبی کے سوا کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔

بعدازاں بحیرانے آپﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور اسے بوسہ دیا اور کہا کہ اس بچے کو یہودیوں سے بچا کر رکھنا کیونکہ وہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اس پر حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کو اپنے غلاموں کے ساتھ واپس مکہ بھیجوادیا۔

دادی جان آپ کے پاس توبہت سی معلومات ہیں میرا خیال ہے کہ آپکو عید میلادنبی کے حوالے سے ایک لیکچر دینا چاہیے جس میں بڑوں کے علاوہ بچے بھی شامل ہوں۔تم نے بالکل صحیح کہا شعیب کی امی بولی آپکے ابا آجائے تو ہم اس کے حوالے سے پروگرام بناتے ہیں ،میرا خیال ہے کہ عیدمیلادنبی سے پہلے آنے والی رات کو عشاء کی نماز کے بعد ہم لوگ گھر پر ہی رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کی دعوت کرتے ہیں سب لوگ مل کر قرآن خوانی کریں گے رسول اللہﷺ کی ولادت کی خوشی میں نعتیں پڑھیں گے اور آپ کی دادی کی اچھی اچھی باتیں بھی سنیں گے ،اُس رات میں عام لوگ جو لغویات کرتے ہیں ہم اس سے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کریں گے۔

ماما آپ ٹھیک کہہ رہی ہے میں بھی آپنے دوستوں اور اُن کے اہل خانہ کو مدعو کروں گا وہ آکر میری دادی کی زبانی اچھی اچھی باتیں سنیں،لغویات سے بچیں اور آپ کا تیار کردہ مزے مزے کا کھانا بھی کھائیں۔

نشان یہی ہےزمانےمیں زندہ قوموں کا

ک صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقد یریں

کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی

معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تفصیریں

قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال

یہ امتیں ہیں جہاں میں برھنہ شمشیریں

خودی سے مرد خود اگاہ کا جمال و جلال

کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں

شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

قبول حق ہیں فقط مرد حر کی تکبیریں

حکیم میری نوائو ں کا راز کیا جانے

ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں علامہ اقبال

گورنمنٹ گرلز ہائ سکول کوٹ سلطان لیہ

کلاس ھشتم اے

خدیجہ مسعود

گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ

سہیل قاسم

نام

دہم

کلاس

گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ

سکول

اذان کا احترام

”بیٹی مریم ! ٹی وی بند کرو اذان ہورہی ہے“۔ ”اچھا ماما جان ! بند کرتی ہوں“ مریم نے جواب دیا ، مگر ٹی وی چلتا رہا ۔ ”سنا نہیں؟ ٹی وی بند کرو“ اب ماما نے تیز آواز میں کہا۔ ابھی کرتی ہوں ”ریموٹ نہیں مل رہا“ مریم نے کہا۔ اتنے میں فاطمہ کی آواز آئی مجھے ثمرن نے چٹکی کاٹی ہے جبکہ ثمرن چلانے لگی پہلے مجھے فاطمہ نے دھکا دیا۔ (ٹی وی چل رہا ہے)آخر تنگ آکر ماما کچن سے باہر آئیں دیکھا کہ بچے آپس میں دھینگا مشتی کررہے ہیں۔ ریموٹ موسیٰ نے پکڑا ہے جو کارٹون دیکھنے کی ضد کررہا ہے۔ اتنی دیر میں اذان بھی ختم ہوگئی۔ ماما اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گئیں کہ ان بچوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اذان کا جواب دیناواجب ہے، یہ تو اللہ کی طرف سے پکار ہے ۔ جب والدین کی آواز پر نہ آنا گناہ ہے تو اللہ کے حکم کو نظر انداز کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ تمام دنیاوی کام کاج چھوڑ کر پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر نماز کا اہتمام کریں، اِسکے بعد دنیاوی کاموں میں دلچسپی لیں۔ میں تمہارے پاپا کو بتاؤں گی کہ تم نے آج کیا کیا؟ رات کو جب اُن کے پاپا آئے تو ماما نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ پایا نے بچوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر بتایا؛”پیارے بچو! دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہونے والی آواز اذان کی ہی ہے۔ یہ واحد آواز ہے جو ہر لمحہ دنیا میں گونجتی رہتی ہے۔ اِسکا جواب دینے والے پر فرشتے رحمت برساتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جتنا ثواب اذان دینے والے جو ملتا ہے ، اتنا ہی ثواب گھر ، دفتر یا باہر کہیں بھی بیٹھے فرد کو اِس کا جواب دینے سے ہوتا ہے۔ پاپا نے اُنہیں ایک تاریخی واقعہ بھی سنایا”خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ نے مکہ شریف اور مدینہ شریف کے درمیان حاجیوں کی سہولت کیلئے ایک نہر کھدوائی تھی۔

خلیفہ وقت نے اُسکا نام ”نہرزبیدہ‘ رکھ دیا تھا ۔ جب ملکہ زبیدہ کا وصال ہو ا تو ایک معزز عورت نے ملکہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا؛”تیرے ساتھ خد ا نے کیا معاملہ کیا؟“ ملکہ نے کہا؛ ”اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا “ ”اس عورت نے پوچھا؛ کیا نہر زبیدہ کی وجہ سے؟“ ملکہ نے کہا؛ نہیں اذان کے احترام کی وجہ سے ۔

مجھے ایک مرتبہ سخت پیاس لگی تھی، میں نے خادمہ کو پانی لانے کیلئے کہا۔ جونہی خادمہ پانی لائی، اذان شروع ہوگئی۔ میں نے پانی نہیں پیا بلکہ اذان کا جواب دینے لگی۔ بس یہی نیکی میرے اللہ نے قبول فرمالی اور مجھے بخش دیا“ دیکھا بچو! اذان کا احترام اور جواب دینے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کتنا بڑا انعام دیتا ہے۔سب بچوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ اذان کا احترام کیا کریں گے۔ میری بھی تمام بچوں سے گزارش ہے کہ اذان کا احترام کیا کریں اور نماز بھی پابندی سے پڑھیں۔

انمول موتی

ماں باپ کی تکلیف کو نظر انداز مت کیجیے کیو نکہ یہ جب بچہڑ جاتے ہیں تو ریشم کے تکیے پر بھی نیند نہں آتی

اگر کوئ تم کو اپنی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے تو پریشان مت ہونا بلکہ فخر کرنا اس کو اندھیرے میں روشنی کی ضرورت تھی اور وہ تم ہو

صرف ایک ہی شخص آپکی زندگی کو بدل سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں

انسان تنہا ہی محفوظ ہوتا ہےہر گناہ کی تکمیل دوست سے ہوتی ہے

اپنا خیال بھی اہم ہے لیکن سب سے اہم خیال اس کا ہےجس نے تجھے صاحب خیال بنایا.

خدیجہ مسعود.

جماعت ہشتم اے

گورنمنٹ گرلز ہائ سکول کوٹ سلطان.

Name.maria batool

Class.7th

EMIS.32230492

ادشاہ اور شیخ چلی

ایک گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔اس کا ایک کام چور بیٹا تھا،شیخی بگھارنے میں بہت ماہر تھا،اس کو شیخ چلی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بڑھیا محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ بھرتی تھی۔ایک دن بڑھیا بیمار ہو گئی،گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔

رات کو ماں بیٹا دونوں نے فاقہ کیا۔

اگلے دن ماں نے کہا”اب تم کچھ کام کرو،جنگل سے لکڑیاں ہی لا کر بیچ دیا کرو تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔“

ماں کی بات سن کر شیخ چلی نے جنگل کی راہ لی۔جو درخت اس کے راستے میں آتا،وہ اس سے پوچھتا۔

”میں تجھے کاٹ لوں یا نہیں۔“ کسی درخت نے بھی اس کا جواب نہ دیا۔

شام ہونے کو تھی،شیخ چلی گھر واپس آنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک درخت نظر آیا،اس نے پاس جا کر پوچھا۔”میں تجھے کاٹ لوں․․․․؟“

درخت بولا”ہاں کاٹ لے مگر ایک نصیحت کرتا ہوں۔

میری لکڑی سے پلنگ بنانا اور بادشاہ کے دربار میں لے جانا،اگر بادشاہ اس کی قیمت پوچھے تو کہنا کہ پہلے ایک دو راتیں اس پر سوئے،پھر اگر مناسب سمجھے تو خریدے۔“شیخ چلی نے درخت کی ہدایت کے مطابق اس سے لکڑیاں کاٹ کر پلنگ تیار کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔

بادشاہ نے قیمت پوچھی تو شیخ چلی نے کہا”پہلے آپ اس کو ایک دو رات استعمال کریں،اگر اس میں کوئی خوبی پائیں تو انعام کے طور پر جو دل چاہے دے دیں۔“

بادشاہ حیران ہوا اور شیخ چلی کے کہنے پر نوکروں کو حکم دیا کہ آج یہی پلنگ میرے کمرے میں بچھایا جائے۔

رات ہوئی تو بادشاہ اسی پلنگ پر سویا۔آدھی رات کو پلنگ کا ایک پایا بولا”آج بادشاہ کی جان خطرے میں ہے۔“

دوسرے نے کہا”وہ کیسے․․․؟“

تیسرا بولا”بادشاہ کے جوتے میں کالا سانپ تھا۔“

چوتھے نے کہا”بادشاہ کو چاہیے کہ صبح جوتے کو اچھی طرح جھاڑ کر پہنے۔

صبح بادشاہ نے اسی طرح کیا۔جوتے جھاڑے گرد اٹھی اس میں سے ایک سانپ نکل کر بھاگا۔

دوسری رات جب بادشاہ سویا تو پھر پایوں نے باتیں شروع کیں۔ایک بولا کہ تم پلنگ کو سنبھالے رکھو۔میں کچھ خبریں جمع کر لوں۔تینوں پایوں نے پلنگ کو تھامے رکھا۔

جب چوتھا واپس آیا تو اس نے خبر سنائی کہ بادشاہ کا وزیر سازش کرکے بادشاہ کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

پھر دوسرا پایا گیا اور خبر لایا کہ بادشاہ کی ایک کنیز وزیر سے مل کر بادشاہ کو زہر دینا چاہتی ہے۔تیسرے پائے نے تجویز پیش کی کہ بادشاہ کو چاہیے کہ وزیر کو قید میں ڈال دیے۔

چوتھا پایا گیا اور یہ خبر لایا کہ بادشاہ کو جو دودھ صبح پینے کو دیا جائے گا،اس میں زہر ہو گا۔

بادشاہ یہ سب کچھ سن رہا تھا۔صبح اٹھ کر جب اسے دودھ دیا گیا تو اس نے نہ پیا بلکہ ایک بلی کو پلا دیا۔بلی اسے پیتے ہی مر گئی۔تحقیق کرنے پر بادشاہ کو پتہ چل گیا کہ واقعی اس کا وزیر اور کنیز دونوں مل کر اس کی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

بادشاہ نے اپنی کنیز اور وزیر دونوں کو قید میں ڈال دیا۔

بادشاہ نے شیخ چلی کو بلایا اور بہت انعام دیا۔شیخ چلی اب مالدار ہو گیا۔بادشاہ کے دربار میں اس کی عزت ہونے لگی اور دونوں ماں بیٹا بڑے آرام کی زندگی بسر کرنے لگے۔

بُرے کام کا بُرا انجام

کسی شہر میں ایک بچہ محمد اویس رہتا تھا۔ وہ بہت نیک اور فرماں بردار بچہ تھا۔ سکول میں اُسکا ایک ہی دوست تھا جس کا نام کلیم تھا۔وہ بہت ذہین تھا مگر اُس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ چوری کرتا تھا۔

اِس بات کا علم صرف محمداویس کو تھا۔ وہ کلیم کو بہت سمجھاتا تھا کہ چوری کرنا بری عادت ہے لیکن وہ ہمیشہ ہی سنی اَن سنی کردیتا۔کلیم کو چوری کی عادت اس طرح پڑی کہ ایک مرتبہ محمد اویس نے سکول سے چھٹی کی،کلیم نے اپنے کلاس فیلو جس کا نام حنیف تھا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔

کلیم کو حنیف کا پنسل باکس بہت پسند آیا تو اُس نے چپکے سے حنیف کا پنسل باکس اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ جب حنیف کو پتا چلا کہ اُس کا پنسل باکس گم ہوگیا ہے تو اُس نے کلیم سے اُسکے بارے میں میں پوچھا۔

کلیم نے کہا؛”اُسے علم نہیں ہے کہ اُسکا پنسل باکس کہا ں ہے“۔

اِس کے بعد کلیم نے سوچا کہ اگر وہ چپکے سے کسی کی چیز کو اپنے پاس رکھ لے گا اور بعد میں تھوڑا ساجھوٹ بول لے گا تو اُسکے پاس بہت سی چیزیں جمع ہو جائیں گی۔ پھر اس نے باقاعدہ چوری کرنا شروع کردی۔ کلیم اب اکثر اپنے دوستوں کی چھوٹی موٹی چیزیں چُرا لیتا تھا۔

محمد اویس نے اُس کو بہت سمجھایا مگر اُس نے محمد ادریس سے بھی دوستی ختم کردی۔ اب اُس نے خراب لڑکوں میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ یہ لڑکے بڑی چوریاں کرنے لگے تھے ۔ اب انہوں نے ایک منصوبہ بنا یا کہ وہ بینک لوٹیں گے۔ یہ اُن کی بدقسمتی تھی کہ جیسے ہی وہ بنک لوٹنے پہنچے تو پولیس کی موبائل بھی وہاں آگئی۔

کلیم اور اُسکے ساتھیوں نے پولیس کو دیکھ کر اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ اِس فائرنگ سے کلیم کا ایک ساتھی اور ایک پولیس کانسٹیبل بھی مارا گیا۔ آخر کار پولیس نے کلیم اور اُسکے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ جب پولیس نے کلیم سے تفتیش کی تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔

زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ گیا اور آہستہ آہستہ عادی مجرم بن گیا۔ کلیم کا مقدمہ عدالت میں چلا تو عدالت نے اُس کو پھانسی کی سزا سنائی۔ محمد اویس نے جب یہ سارا واقعہ سناتو وہ کلیم سے ملنے جیل گیا اوراُس سے کہا کہ دیکھو میں تمہیں کتنا سمجھاتا تھا مگر تم نے میری بات نہیں سنی اور آج اِس کا انجام دیکھ لیا۔ اب کلیم اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔

عبدالہادی کلاس پنجم

گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاون لیہ

بلبل کا گھونسلہ

ایک باغ میں ایک بلبل اپنے دو بچوں کے سا تھ ایک سو کھے درخت پر رہتی تھی -اس درخت پر کبھی پھل نہیں آیا تھا-ایک دن با غ کا ما لک آ گیا اور ما لی کو بلا کر پوچھا کہ اس سوکھے درخت کا کیا کرنا ہے؟اسے حکم دیا کہ اس درخت کو کا ٹ کر اس کی لکڑیا ں میرے گھر بھیج دو اور اس کی جگہ نیا درخت لگا دو-یہ کہہ کر ما لک با غ سے چلا گیا -بلبل اس وقت خوراک کی تلا ش میں با ہر گئی ہو ئی تھی -جب وہ واپس آئی تو بچوں نے اسے سار ی بات بتا ئی اور کہاکہ ہم بہت پریشا ن ہیں – اب ہم کہاں جا ئیں گے؟ بلبل نے کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ما لک نےصرف ما لی سے کہا ہے اور

ما لی بہت کاہل ہے وہ کبھی درخت نہیں کا ٹے گا- جب دوسری صبح ہوئی ، مالی آیا درخت کو پا نی دیا اور چلا گیا -جب اگلے دن بھی ما لک نے درخت کو نہ کا ٹا پا یا تو مالی کو بلا کر پوچھا -اس نے جواب دیا کہ وہ سا را وقت پودوں کو پا نی دینے میں مصروف رہا اور درخت کا ٹنے کا وقت نہ ملا-

مالک نے کہا کہ کل میں دوسرا ما لی بھیج دوں گا جو درخت کو کا ٹ دے گا-بلبل جب خوراک لے کر واپس آئی تو بچوں کو پریشان پا یا -انہو ں نے ما ں کو بتا یا کہ آج پھر با غ کا مالک آیا اور دوسرے مالی کو درخت کا ٹنے کا کہا -بلبل نے کہا کہ میرے بچوجو آدمی اپنا کام دوسروں پر چھوڑتا ہے تو وہ کام کبھی پورا نہیں ہوتا اس لیے کل کا دن بھی ہما را ہے-اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا کوئی آدمی درخت کاٹنے نہ آیا -تیسرے دن ما لک نے خود درخت کا ٹنے کا فیصلہ کر لیا اور ما لی کو حکم دیا کہ کل وہ خود آ کر درخت کا ٹے گا-بچے یہ بات سن کر پریشان ہو گئے -جب ان کی ماں آئی توانہوں نے سا را ماجرا کہہ سنا یا تو بلبل نے کہا میرے بچو اب یہاں سے چلو کیونکہ ما لک نے خود کا م کرنے کا ارادہ کر لیا ہے وہ کل ضرور آکر درخت کا ٹے گا-

اس طرح بلبل کی عقل مندی کی وجہ سے سب دوسری جگہ منتقل ہو گئے -دانش وروں نے درست فرمایا کہ جو اپنا کام دوسرے کے آسرے پر چھوڑتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اس لیے ہر انسان کو اپنا کام خو د کرنا چا ہیے-

خدیجہ کرن

کلا س دہم

گورنمنٹ گرلز ہا ئی سکول جمن شاہ

بلبل کا گھونسلہ

ایک باغ میں ایک بلبل اپنے دو بچوں کے سا تھ ایک سو کھے درخت پر رہتی تھی -اس درخت پر کبھی پھل نہیں آیا تھا-ایک دن با غ کا ما لک آ گیا اور ما لی کو بلا کر پوچھا کہ اس سوکھے درخت کا کیا کرنا ہے؟اسے حکم دیا کہ اس درخت کو کا ٹ کر اس کی لکڑیا ں میرے گھر بھیج دو اور اس کی جگہ نیا درخت لگا دو-یہ کہہ کر ما لک با غ سے چلا گیا -بلبل اس وقت خوراک کی تلا ش میں با ہر گئی ہو ئی تھی -جب وہ واپس آئی تو بچوں نے اسے سار ی بات بتا ئی اور کہاکہ ہم بہت پریشا ن ہیں – اب ہم کہاں جا ئیں گے؟ بلبل نے کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ما لک نےصرف ما لی سے کہا ہے اور

ما لی بہت کاہل ہے وہ کبھی درخت نہیں کا ٹے گا- جب دوسری صبح ہوئی ، مالی آیا درخت کو پا نی دیا اور چلا گیا -جب اگلے دن بھی ما لک نے درخت کو نہ کا ٹا پا یا تو مالی کو بلا کر پوچھا -اس نے جواب دیا کہ وہ سا را وقت پودوں کو پا نی دینے میں مصروف رہا اور درخت کا ٹنے کا وقت نہ ملا-

مالک نے کہا کہ کل میں دوسرا ما لی بھیج دوں گا جو درخت کو کا ٹ دے گا-بلبل جب خوراک لے کر واپس آئی تو بچوں کو پریشان پا یا -انہو ں نے ما ں کو بتا یا کہ آج پھر با غ کا مالک آیا اور دوسرے مالی کو درخت کا ٹنے کا کہا -بلبل نے کہا کہ میرے بچوجو آدمی اپنا کام دوسروں پر چھوڑتا ہے تو وہ کام کبھی پورا نہیں ہوتا اس لیے کل کا دن بھی ہما را ہے-اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا کوئی آدمی درخت کاٹنے نہ آیا -تیسرے دن ما لک نے خود درخت کا ٹنے کا فیصلہ کر لیا اور ما لی کو حکم دیا کہ کل وہ خود آ کر درخت کا ٹے گا-بچے یہ بات سن کر پریشان ہو گئے -جب ان کی ماں آئی توانہوں نے سا را ماجرا کہہ سنا یا تو بلبل نے کہا میرے بچو اب یہاں سے چلو کیونکہ ما لک نے خود کا م کرنے کا ارادہ کر لیا ہے وہ کل ضرور آکر درخت کا ٹے گا-

اس طرح بلبل کی عقل مندی کی وجہ سے سب دوسری جگہ منتقل ہو گئے -دانش وروں نے درست فرمایا کہ جو اپنا کام دوسرے کے آسرے پر چھوڑتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اس لیے ہر انسان کو اپنا کام خو د کرنا چا ہیے-

خدیجہ کرن

کلا س دہم

گورنمنٹ گرلز ہا ئی سکول جمن شاہ

نام طالبہ:کنز ٰی بی بی کلاس ششم

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ

EMIS: 32230137

بیری کے درخت کے بارے میں اہم معلومات

کیا آپ جانتے ہیں کہ بیروہ پھل ہے جس کا ذکر تین الہامی کتابوں تورات، انجیل اور قرآن مجید میں موجود ہے؟ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر اترے تو سب سے پہلے بیری کا پھل ہی کھایا۔ اسےانگریزی میں جوجب کہتے ہیں۔ لمبے والا بیر سب سے پہلے چین کے علاقے میں پیدا ہوا جبکہ گول والا بیر ہندوپاک کے علاقے میں پلا بڑھا۔ اب تو یہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ عام طور پر بیر کی تین نسلیں ہیں جو کہ مشہور ہیں۔ (1)پیوندی بیر (2) تخمی بیر (3) جنگلی بیر۔

درج بالا تینوں نسلوں میں غذائیت تقریبا ایک جیسی ہے۔ بس تھوڑا بہت میٹھا اور پانی کا فرق ہے۔ اس کے اندر کیسی غزائیت پائی جاتی ہے آئیے ذرا اس کا جائزہ لیں۔

۔ ۔بیر میں وٹامن سی پایا جاتا ہے جو ہمارے مزاحمتی نظام کے لیے بہت ضروری ہے1

2۔بیروں میں زیادہ مقدار میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے جو دل، اعصاب کی صحت کے لئے بہت اچھا ہے۔

۔ بیر کے اندر مناسب مقدار میں پروٹین موجود ہے جو پٹھے مضبوط کرتا ہے۔3

۔ بیر قدرتی نیند آور دوا اور مایوسی کو رفع کرنے والا پھل ہے۔4

گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ

محمد ریحان

نام

نہم

کلاس

گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ

سکول

جنت

فیس بُک جب بھی دیکھو کوئی نہ کوئی درد ناک خبر ضرور پڑھنے کو ملتی ہے۔ کئی ایسی کہانیاں سامنے آجاتی ہیں کہ انسان کئی روز تک اُن کے زیر اثر رہتا ہے اور ذہن سے ان خیالات کو جھٹک نہیں پاتا جو اس واقعہ کے بارے میں جان کر ذہن میں آتے رہتے ہیں۔ ایک روز فیس بک پر مختلف پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ اچانک دیکھتے ہی دیکھتے میری نظر پڑی تو ایک بند دروازے پر ایک عورت کھڑی فریاد کررہی تھی․․․․․
”کھول دے بیٹا“مجھ پر بند نہ کر یہ در․․․․․میں نے برسوں تمہیں پالا ہے،سنبھالا ہے اور نہ جانے کتنے دُکھ اٹھائے ہیں۔ تیر ے دم سے میرا اُجالا ہے ۔ تونے گھر سے مجھے نکالا ہے ۔ میں تو ماں ہوں پھر بھی تمہیں بددعا نہیں دونگی تجھ کوصرف جینے کی دعا دونگی۔ یہ پڑھ کر یقین نہیں آیا کہ ایک عظیم ماں کی ہستی کے ساتھ ایسا بھی سلوک ہوسکتاہے․․․․․کچھ روز پہلے کچھ ایساہی قصہ کسی نے سنایا تھا پھر بھی مجھے یقین نہیں آیا تھا۔

وہ قصہ کچھ یوں تھا کہ چار بچوں کی ماں اس لڑکے کی اہلیہ تھی ۔ روز بہو اور ساس کی تکرار رہتی ۔ وہ جیسے ہی گھر آتا دونوں شکایات کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتی تھیں۔آخرایک دن بیٹے نے تنگ آکر ماں سے کہا۔
”میری زندگی عذاب بن گئی ہے․․․․روز روز کی تکرار سے میں تنگ آگیا ہوں‘بہتر یہی ہے کہ آپ کہیں اور چلی جائیں۔ میں گھر میں سکون چاہتاہوں۔“
ماں بولی تو کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی جواب دیا اور دوسر ی صبح وہ چپکے سے گھر سے نکلی اور دار الامان میں پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ وہاں کیسا سلوک ہوا اس کی کچھ خبر نہیں ہے۔ مجھے یہ قصہ سن کر حیرت ہوئی․․․․․کیا کوئی بیٹا اپنی ماں کو اس طرح کہہ سکتاہے کہ تم اس گھر سے چلی جاؤ۔ وہ ماں جوراتوں کو جاگ جاگ کر بچے کو پالتی ہے اور اپنی آنکھوں میں سنہرے خواب سجاتی ہے۔ بڑا ہو گا تو میرا تا بعدار بیٹا ہوگا․․․․بیوگی کے دن مشکلوں سے کاٹ رہی ہوں۔ میرا سہارا ہو گا۔ طرح طرح کی امیدیں پالتی ہے مگر اس وقت اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ بڑا ہو کر اس کا سہارا بنے گا کہ نہیں․․․․․وہ محنت مزدوری کرکے اس کا پیٹ پالتی ہے۔

پڑھاتی،لکھاتی ہے۔ جوانی کی بیوگی کوبھول کربچے کی پرورش میں لگی رہتی ہے۔ جب تک وہ سکول نہیں جاتا تو اسے گھر پر تعلیم دینی ہے․․․․پھر سکول میں ایڈمیشن کے بعد اس کی پڑھائی لکھائی کا سارا ذمہ اپنے سر لیتی ہے۔ پڑھ لکھ کر جب جوان ہوتاہے تو اچھی نوکری لگتے ہی اس کی شادی کی فکر ہوتی ہے ۔

شادی ہوتو اس کا گھر بس جائے شادی سے پہلے وہ ماں کا تابعدار بیٹا ہوتا ہے کئی رشتے دیکھنے کے بعد بیٹے کی ہی پسند کی لڑکی سے شادی کروادیتی ہے اور پھر بہو کی اپنی ساس سے نہیں بنتی۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ اسے گھر سے باہرنکال دے مگر شوہر کے ڈر سے ایسا نہیں کرتی۔

وقت گزرتا رہتا ہے اور وہ لڑکا چار بچوں کا باپ بن جاتاہے مگر اس گھر میں لڑائی ختم نہیں ہوتی۔ روز روز بڑھتی لڑائی کو دیکھ کر بیٹے کے منہ سے یہ نکل جاتاہے”ماں تم چلی جاؤ“ایسا وقت خدا کسی پر نہ لائے اور وہ عورت گھر سے نکل کر اولڈ ہاؤس میں چلی جاتی ہے۔ بچے ایسا سلوک کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ جیسا وہ بیجیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔یہ مکافات عمل بھی ہے۔ اولاد اتنی بے حس ہو جاتی ہے کہ ماں کی پرورش اور محنت کو بھول جاتی ہے کیسے ایک ماں نے اپنے خون جگر سے اس کو پالا؟ بیٹا مکافات عمل کو بھی بھول جاتاہے۔

ایک روز انہی بچوں نے اپنی ماں اور باپ کو گھر سے جانے کے لئے کہنا ہے ۔ بچوں کو تعلیم دی نہیں جاتی بلکہ وہ تعلیم گھر میں رہتے ہوئے حاصل کرتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں جو ان کے والدین بزرگوں کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے خدارا اس طرح کی لڑائیوں کا حل تلاش کرنا چاہئے یہ نہیں کہ ماں کو صاف صاف کہہ دیاجائے تم چلی جاؤ۔

یہ بھی نہیں سوچتے اس ماں کے دل پر کیا بیتی ہو گی؟ کاش ایسا فعل کوئی نہ کرے ۔ اپنی ماں سے محبت کریں اور جنت میں اپنا مقام بنائیں یہ نہیں کہ جنت کماتے کماتے دوزخ کمالیں۔

سکول نام:۔ گورنمنٹ گرلزہایئرسیکنڈری سکول لدھانہ لیہ

ایمس کوڈ:۔ 32230046

کلاس:۔

خبریں
”گنے کی آپ بیتی “

میں جب نرم ونازک پودے کی صورت میں زمین کی تہہ سے باہر نکلا ۔ تو ٹھندی ٹھندی ہوا نے میرا ستقبال کیا۔

کبھی دھوپ کبھی چھاوں کبھی سردی تو کبھی گرمی کی شدت کو سہتا ہوا۔ تیزی سے پروان چڑھا۔جو ں جوںمیرا قد بڑھتا گیاتو پیاس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔میری پیاس کبھی بارش نے بجھائی تو کبھی ٹیوویل کے صاف شفاف پانی سے سیراب ہوا۔ اِس کیفیت میں نو ماہ بیت گئے ۔ آخر کارنومبر کا مہینہ آ پہنچا۔ایک دن کھیت میں مزدورں نے یلغار کر دی۔

جس کی زد میں میں بھی آ گیااور دوسرے گنوں کے ساتھ ایک گٹھا بنا یاگیا۔ٹرالی پر لوڈ کرکے شوگر مل پہنچا دیا گیا۔جس میں مجھے اپنا انجام نظر آنے لگا۔میرا رس نکال کر چینی بنائی جائے گی اور میری شناخت کو مِٹا دیا جائے گا۔

لیکن مجھے خوشی ہے ۔کہ جس مقصد کے لیے میری تخلیق ہوئی تھی کہ میں انسانیت کی خدمت کا سبب بنوں گا۔

میمونہ عرفان۔کلاس ہشتم

زندگی کا انمول سبق

ایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے یہ سبق سیکھیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے۔اس بات کو سمجھانے کے لیے اس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اور دور دراز علاقے میں ایک ناشپاتی کا درخت دیکھنے کو بھیجا۔اس نے چاروں لڑکوں کو باری باری سفر شروع کرنے کا کہا۔باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔پہلا بیٹا سردی کے موسم میں وہاں پہنچا۔اور درخت کو دیکھ کر واپس آگیا۔دوسرا بہار میں،تیسرا گرمی میں وہاں پہنچا۔جب کہ سب سے چھوٹا بیٹا سردی میں درخت کو دیکھ کر واپس لوٹا۔اب اس آدمی نے چاروں لڑکوں کو اپنے پاس بلا لیا اور سب سے درخت کا احوال دریافت کیا۔پہلے بیٹے نے جو جاڑے کے موسم میں وہاں پہنچا تھا بتایا۔”ابا جان! وہ تو بیت بدصورت اور ٹیڑھا میڑھا سا تھا۔میں حیران ہوں ک اس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ آپ نے اتنی دور صرف اس درخت کو دیکھنے بھیجا” ۔دوسرے نے کہا۔”نہیں ابا جان،وہ درخت تو ہرا بھرا تھا۔شاخوں اور پتوں سےبھرا ہوا۔تیسرے نے ان دونوں سے اختلاف کیا۔”ابا جان وہ درخت تو پھولوں سے بھرپور سجا ہوا تھا۔ایسا حسین منظر کہ وہ تو واقعی میں دیکھنے کے لائق تھا۔” اس پر سب سے چھوٹے بیٹے کی رائے سب سے مختلف تھی۔”آرے می نے خود دیکھا کہ وہ درخت تو بہت خوبصورت پھیلا ہوا اور بھرپور پھلوں سے لدا ہوا تھا۔اتنے پھل کہ شاخیں زمین پر جھکی ہوئی تھی” ۔اور اسکے ساتھ ہی چاروں بھائی آپس میں بحث کرنے لگے۔بوڑھا آدمی یہ سب سن کر مسکرایا اور بولا۔” بیٹا م سب ہی ٹھیک ہو۔اور کسی کی رائے بھی غلط نہیں”۔یہ سن کر چاروں حیران ہوئے۔کہ ایسا کیسے ممکن بوڑھے آدمی نے بات جاری رکھی۔”دیکھو میرے بچو! کبھی کسی کو ایک حالت میں دیکھ کر اسکے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لینا۔کسی بھی فرد کو جاننے کیلئے کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔انسان کبھی کسی کیفیت میں ہوتا ہے اور کبھی کسی اور حالات میں۔اگر تم نے درخت کو جاڑے کے موسم میں سوکھا ہوا دیکھا تو ضروری نہیں کہ اس پر کبھی بہار نھیں آئے گی۔اسی طرح،انسان پر بھی حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔وہ کبھی اچھے حالت اور مزاج میں ہوتا ہے اور کبھی اسکے برعکس حالات میں۔کسی کے بارے میں بھی رائے قائم کرنے میں جلدبازی سے بچنا۔اسی طرح زندگی میں ایک موسم کو بنیاد بنا کر باقی تمام موسموں کو بھی تباہی نہیں کرنا چاہیے”۔مجھے امید ہے آپ اس سبق کو سمجھ چکے ہوںگے۔

گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول(انصاف آفٹر نون) 334/ٹی ڈی اے لیہ۔

ایم ایس کوڈ : 32230346

مقدس بی بی ۔

کلاس: ششم

عنوان : سکول میز کی آپ بیتی۔

میں ایک میزہوں۔ آئیں میری کہانی سنیں۔ میں ایک درخت کا حصہ ہوا کرتا تھا مجھ پر پرندے بیٹھتے تھے۔ اور میری چھاؤں کے نیچے انسان بیٹھتے تھے۔ اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان تک آکسیجن فراہم کرتا تھا۔ ایک دن لکڑہارے نے مجھے کاٹا اور بڑھئ کی دوکان پر بیچ دیا۔ میں کافی دن بڑھئ کی دوکان پر باقی لکڑیوں کی طرح پڑا رہا۔جب بڑھئ باقی لکڑیوں کو کاٹتا ٫چیرتا پھاڑتا ۔تو میں اندر ہی اندر بہت پریشان ہوتا کہ ایک دن میرے ساتھ بھی ایسا ہوگا۔ پھر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا۔ بڑھئ نے مجھے اٹھایا اور آرے کی مدد سے میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔اور پھر مجھے ایک میز کی شکل دے دی۔ مجھے اچھے سے پالش کیا گیا۔جس سے میری خوبصورتی دوبالا ہو گئ۔جب مجھے ایک سکول ٹیچر نے خریدا تو میں بہت خوش ہوا اب میرے وارے نیارے ہو گئے کہ اب میں آرام وسکون سے باقی کی زندگی گزار سکوں گا۔ پہلے پہل تو مجھے بڑا صاف ستھرا کر کے رکھا گیااور میرا بہت خیال کیا لیکن بعد میں ایسا نہ ہوا۔مجھے سکول میں بچوں نے بہت تکلیف دی۔ تفریح کے وقت بچوں کا گروہ میرے اوپر بیٹھ جاتا اور میرا احساس تک نہ کرتے۔ خیر وقت گزرتا گیا اور میں ایک کمرے کی حد تک رہ گیا۔اور باقی کی زندگی وہی پہ ہی گزار دی۔

نام طالبہ:سحرش بی بی کلاس ششم

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ

EMIS: 32230137

سنہری باتیں

1۔کبھی بھی کسی کو نیچی نگاہ سے مت دیکھو کیونکہ جو تمہاری حیثیت ہے، یہ تمہاری قابلیت نہیں بلکہ اللہ تعالی کا کرم ہے۔

2۔ جو دو گے وہی لوٹ کرآئے گا چاہے عزت ہو یا دھوکہ۔

3۔ اگر زندگی کی خوشیاں حاصل کرنا چاہتے ہو تو مسکراہٹ لبوں پر سجا لو۔

4۔ سمندر جہاز کو تب تک نہیں ڈبو سکتا جب تک پانی جہاز میں داخل نہ ہو جائے۔ بالکل اسی طرح دنیا کے تمام منفی خیالات تب تک آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب تک آپ خود انہیں اپنے آپ پر حاوی نہ ہونے دیں۔

5۔ کائنات کی اشیاء پر غور کیجئے ہر شے کہہ رہی ہے۔

“Made by Allah”

نام طالبہ: بشریٰ رمضان کلاس ششم

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ

EMIS: 32230137

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مزاح سے بھرپور باتیں

1۔ بچپن میں ایک دفعہ علامہ محمد اقبال دیر سے اسکول پہنچے۔ استاد صاحب نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو بے ساختہ جواب دیا۔ “استاد محترم! اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے”۔

2۔ ایک موقع پر علامہ اقبال اپنے استاد سید میر حسن کے فرزند جس کا نام احسان تھا کو اٹھائے کہیں جا رہے تھے بوجھ کی وجہ سے تھک گئے اور کچھ دیر سستانے کو رک گئے۔ استاد صاحب نے رک جانے کی وجہ پوچھی تو بولے “آپ کا احسان مجھ پر بھاری ہے”۔ یہ ذو معنی جملہ سن کر استاد محترم بہت محظوظ ہوئے اور بیٹے کو پیدل چلنے کا حکم دیا۔

فاتح کون؟

مس عاصمہ کلاس میں داخل ہوئیں تو ایک دم خاموشی چھا گئی، مس نے کلاس کی ذہین بچی رابیلا سے پوچھا ” کیا آپ نے ٹیسٹ کی کاپیاں جمع کر لی ہیں؟

“جی مس کر لی ہیں” رابیلا نے جواب دیا ۔ ٹھیک ہے آپ میرے ساتھ آئیں- مس عاصمہ نے باہر جاتے ہوئے کہا تو رابیلا ان کے سا تھ با ہر چلی گئی-“ہر کوئی رابیلا رابیلا ہی کرتا رہتا ہے جیسے پورے سکول میں رابیلا کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں،ذرا اس کی شکل دیکھوکسی دن ایسا مزہ چکھاؤں گی کہ ہمیشہ یاد رکھے گی ” کلاس کی لڑکی ماہ نور بہت غصے میں تھی-

رابیلا اسی سال سکول میں داخل ہوئی تھی- و رنہ اس سے پہلے ماہ نور اول پوزیشن لیتی تھی،رابیلا نے جلد ہی ماہ نور کی جگہ لے لی توماہ نور اُس سے جلنے لگی گی -ماہ نور ا سے پیچھے کرنے کا سوچتی تھی مگر کامیاب نہیں ہوپا تی- جمعرات کو سکول میں کھانا پکانے کا مقابلہ تھا۔جس کے لیے مس عاصمہ نے لڑکیوں کو تیار کر دیا تھا-ماہ نور سوچ رہی تھی ” رابیلا اس مقابلے میں حصہ لے گی لیکن میں اسے جیتنے کا مو قع نہیں دوں گی” ۔ مقابلے میں رابیلا کو سویٹ ڈش بنانی تھی -رابیلا نے اپنی ڈش تیار کر کے میز پر رکھی اور کسی کام میں لگ گئی- ما ہ نور نے رباب اور سا ئرہ کو دیکھا – وہ بھی اپنے کام میں مصروف تھیں – اس نے تھوڑی سی شکر لی اور ادھر اْ د ھر دیکھ کر رابیلا کی بنائی ہوئی ڈش میں شکر ڈال دی۔اسی وقت رابیلا بھی وہا ں آ گئی – ما ہ نور اسے دیکھ کر گبھرا گئی–

اسی وقت اعلان ہوا کہ ” سب جلدی کریں اور اپنی اپنی ڈشیں لے کر ہا ل میں آ جا یئں ” – تھوڑی دیر بعد تمام طالبات ہال میں جمع ہو گئیں -ڈشیں بھی جا چکی تھیں -ماہ نور نے رابیلا کہ دیکھا وہ پریشان ٹہل رہی تھی –” کیا بات ہے رابیلا؟” تم پریشان لگ رہی ہو؟ ماہ نور نے اس کے پاس جا کر پوچھا تو رابیلا نے کندھے جھٹکے پھر اس نے کہا ” میں انعام حاصل نہیں کر سکتی تھوڑی بہت امید تھی اب وہ بھی ختم ہو گئی ہے”

وہ کیوں؟ ماہ نور نے اپنی خوشی چھپاتے ہوے کہا-” وہ اس لیے کہ میں اپنی ڈش میں شکر ڈالنا بھول گئی ہوں” رابیلا نے فکر مندی سے کہا۔اس کی با ت سن کر ما ہ نور کو یوں لگا جیسے رابیلا نے اس کے چہرے پر زور دار تھپڑ دے مارا ہو-وہ سوچ رہی تھی کہ آج تو میں نے خود ہی رابیلا کو اس مقابلے کا فاتح بنا دیا -آج اسے پتا چلا تھا کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیےکوئی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے لیکن جب تک اللہ نہ چاہے کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا-

عائشہ امین کلا س نہم گو رنمنٹ گرلز ہا ئی سکول جمن شا ہ لیہ

تہمینہ پروین جماعت نہم

قصور ہمارا نہیں ہماری سوچ کا ہے

تمام کاموں کا دارومدار سوچ عقل اور شعور پر ہوتا ہے۔ سب انسانوں کو اللہ تعالی نے ایک جیسا بنایا تو پھر کچھ انسان ہی مشہور اور نامور کیوں ہوتے ہیں ؟

کون سی چیز انسان کو انسان سے بہتر بناتی ہے؟ سوچ

آج کل بہت سی برائیاں عام ہیں ۔ اتنی برائیاں ہیں کہ اب اگر کوئی شخص برائی کرے بھی تو اسے برائی سمجھتا ہی نہیں ہے ۔برائی کونسا میں ہی کر رہا ہوں سب کرتے ہیں اور آخر کار ہم سب ان تمام برائیوں کا قصوروار معاشرے کو بنا دیتے ہیں ۔ ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ تمام برائیاں ہماری وجہ سے ہی ہیں اس میں معاشرے کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ معاشرہ ہماری سوچ اور عقل کی وجہ سے برا بنتا ہے ۔

لیکن افسوس اپنے آپ میں عیب کون نکالے ؟

ایک انسان اچھی سوچ کی وجہ سے دنیا بدل سکتا ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم اکیلے اتنے بڑے معاشرے کو کیسے بدل سکتے ہیں ؟یہ نہیں کر سکتے لیکن یہ صرف صرف ہماری سوچ ہی ہے انسان اپنی سوچ کی وجہ سے تو دنیا بدل سکتا ہے ۔

قائداعظم نے صرف اکیلے نے یہ سوچا تھا کہ انگریزوں کے قبضے سے مسلمانوں کو آزادی دلانی ہے ۔ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ ان کی سوچ اچھی تھی ۔ ارادے مضبوط تھے۔ آج کل ہر انسان تمام برائیوں کا ذمہ دار معاشرے کو ٹھہرانے کے بجائے اگر اپنے آپ کو ٹھہرائے ان برائیوں کے پیچھے وجہ اگر اپنے اندر تلاش کرے تو یہ معاشرہ بدل سکتا ہے ۔ معاشرہ سنور سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے اچھی سوچ ضروری ہے ۔

سوچ بدلو زندگی بدلو

اچھی سوچ روشن مستقبل

تو آئیے ! ہم سب مل کے اپنے آپ کو بدلے اپنی سوچ کو بدلیں۔

تہمینہ پروین جماعت نہم

قصور ہمارا نہیں ہماری سوچ کا ہے

تمام کاموں کا دارومدار سوچ عقل اور شعور پر ہوتا ہے۔ سب انسانوں کو اللہ تعالی نے ایک جیسا بنایا تو پھر کچھ انسان ہی مشہور اور نامور کیوں ہوتے ہیں ؟

کون سی چیز انسان کو انسان سے بہتر بناتی ہے؟ سوچ

آج کل بہت سی برائیاں عام ہیں ۔ اتنی برائیاں ہیں کہ اب اگر کوئی شخص برائی کرے بھی تو اسے برائی سمجھتا ہی نہیں ہے ۔برائی کونسا میں ہی کر رہا ہوں سب کرتے ہیں اور آخر کار ہم سب ان تمام برائیوں کا قصوروار معاشرے کو بنا دیتے ہیں ۔ ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ تمام برائیاں ہماری وجہ سے ہی ہیں اس میں معاشرے کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ معاشرہ ہماری سوچ اور عقل کی وجہ سے برا بنتا ہے ۔

لیکن افسوس اپنے آپ میں عیب کون نکالے ؟

ایک انسان اچھی سوچ کی وجہ سے دنیا بدل سکتا ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم اکیلے اتنے بڑے معاشرے کو کیسے بدل سکتے ہیں ؟یہ نہیں کر سکتے لیکن یہ صرف صرف ہماری سوچ ہی ہے انسان اپنی سوچ کی وجہ سے تو دنیا بدل سکتا ہے ۔

قائداعظم نے صرف اکیلے نے یہ سوچا تھا کہ انگریزوں کے قبضے سے مسلمانوں کو آزادی دلانی ہے ۔ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ ان کی سوچ اچھی تھی ۔ ارادے مضبوط تھے۔ آج کل ہر انسان تمام برائیوں کا ذمہ دار معاشرے کو ٹھہرانے کے بجائے اگر اپنے آپ کو ٹھہرائے ان برائیوں کے پیچھے وجہ اگر اپنے اندر تلاش کرے تو یہ معاشرہ بدل سکتا ہے ۔ معاشرہ سنور سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے اچھی سوچ ضروری ہے ۔

سوچ بدلو زندگی بدلو

اچھی سوچ روشن مستقبل

تو آئیے ! ہم سب مل کے اپنے آپ کو بدلے اپنی سوچ کو بدلیں۔

گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ

واسع علی

نام

ششم

کلاس

گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہ

سکول

قناعت پسندی

پیارے بچو! آپ نے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کانام ضرور سنا ہوگا خلیفہ ہارون الرشید بھیس بدل کر اپنی رعایا کی خبرگیری کیاکرتا تھا۔ ایک بار اس نے دریا کے کنارے ایک شخص کو دیکھا جو جال پھینکے مچھلیاں پکڑ رہا تھا خلیفہ نے اس سے پوچھا کہ کوئی مچھلی پکڑی؟
اس نے کہا۔ ابھی تک کوئی نہیں۔خلیفہ نے پوچھا۔کوئی اُمید ہے؟وہ کہنے لگا شام تک تین مچھلیاں پکڑلوں گا۔وہ کیسے؟ خلیفہ نے حیران ہوکر پوچھا۔ تین ہی کیوں؟وہ کہنے لگا ۔ برسوں ہوگئے ایسے ہی زندگی گزار رہاہوں۔ قدرت میرے لئے روز تین مچھلیوں کا انتظام کردیتی ہے۔جونہی تین مچھلیاں پکڑتا ہوں تو جال اٹھائے گھر چلاجاتا ہوں۔خلیفہ کو اس کی باتوں میں دلچسپی پیداہوگئی تو پوچھا․․تین مچھلیوں کا کیاکرتے ہو؟اس نے کہا ۔ ایک گھر میں پکا لیتا ہوں باقی دو بیچ کرضروریات زندگی پوری کرتا ہوں۔
خلیفہ نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ مجھے اپنا حصہ دار بنالو۔ ہم اکٹھے یہ کام کرتے ہیں۔ مچھیرے نے کہا۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے جو چاہئے مجھے روز مل جاتا ہے کافی تکرار سے خلیفہ نے اسے راضی کرلیا کہ روزانہ کی تین مچھلیوں میں میرا کوئی حصہ نہ ہوگا اس کے علاوہ جو مچھلیاں پکڑو گئے اس میں میرا چوتھا اور تین حصے تمہارے۔

خلیفہ نے نئے جال اور ضروری سامان کیلئے مچھیرے کو کچھ سکے دئیے۔ اور کہا اگر میں نہ آسکوں تو مجھے بغداد ملنے آجانا۔ میرانام ہارون الرشید ہے۔ اللہ کی قدرت خلیفہ کی پارٹنر شپ کے بعد مچھلیاں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ مچھلیاں پکڑنے والا اپنی تین مچھلیاں علیحدہ کرلیتا، بقایا مچھلیاں فروخت کرتااور خلیفہ کا چوتھائی حصہ الگ کرلیتا۔

اس وقت سونے چاندی کے سکوں کا رواج تھا۔ وہ شخص خلیفہ کی اشرفیاں ایک برتن میں جمع کرتا گیا۔ کافی عرصہ گزرگیا تو وہ فکر مند ہوا کہ کیا انسان ہے کہ میرے ساتھ کاروبار کرنے کے بعد پلٹ کرواپس نہیں آیا۔آخر ایک دن اس نے اشرفیوں کا برتن اٹھایا اور بغداد جاپہنچا۔

لوگوں سے ہارون الرشید کا پوچھتا ہوا محل تک جا پہنچا۔سکیورٹی والوں کو ہدایت تھی کہ جوبھی خلیفہ سے ملنا چاہتا اسے ملوایاجاتا تھا ۔ مچھیراتو خلیفہ کی شان وشوکت اور عظیم الشان دربار دیکھ کر حیران ہوگیا۔ خلیفہ نے اسے پہچان لیا۔محبت سے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کیسے آنا ہوا؟ اس نےوں سے ہارون،کے دئیے۔ اور کہا۔جھجکتے ہوئے بتایا کہ آپ کے حصے کا منافع لیکر آیا ہوں۔ خلیفہ بہت خوش ہوا اس نے اپنا حصہ بھی اسے انعام دیا اس کے ساتھ ساتھ بہت سے تحفے تحائف بھی دیئے اور کہا۔ جب تمہاری بات سنی تو محسوس ہوا کہ قدرت نے تمہاری قسمت میں روز کی تین مچھلیاں لکھی ہیں اور تم قناعت پسند بھی تھے۔قدرت نے مجھے بے شمار دولت سے نوازا ہے۔ میں نے تیرے ساتھ کاروبار میں قسمت کا اشتراک کیا تھا جو برکت آئی وہ مشترکہ قسمت کا نتیجہ ہے۔بچو! اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہرکسی کے ساتھ نیکی کرتے رہیں تاکہ ہماری شراکت سے کسی کو بہت سافائدہ ہو۔

مریم صداقت جماعت نہم

کرسی کی آپ بیتی

آج میں آپ کو ایک ایندھن کے لکڑی کے ٹکڑوں کی صورت میں دکھائی دے رہی ہوںـ مگر میرا ماضی نہایت تابناک رہا ہے ـ پہلے میں ایک طاقتور درخت شیشم کا حصہ ہوتی تھی ـ میری شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جھومتی تھی کو مگر آہستہ آہستہ میں بوڑھی ہو گی آخر کار ہم سب شاخیں اپنی زلف گر ہ گر سے محروم ہو گئیں ـ ایک روز ایک لکڑہارا آیا وہ ایک درخت کے پاس گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگا ـ جب میں نے اس درخت کوگرتے دیکھا تو میرا دل خون کے آنسو رونے لگا ابھی میں اسی غم میں تھی کہ اس لکڑہارے نے ایک کلہاڑی اور وار سے مجھ پر حملہ کردیا ـ

مجھے بہت تکلیف ہوئی پھر وہ لکڑہارا مجھے لے گیا اور مجھے مارکیٹ میں بیچ دیا ـ پھر ایک بڑھئی نے مجھ کو خرید لیا اور میرے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور پھر مجھے کیل ٹھوکا ـمجھے بہت غصہ آیا اور جب اس نے مجھے جوڑا تو میں ایک شاندار کرسی بن گئی ـاور پھر بڑھئی نے مجھ پہ رنگ کیا جس کی وجہ سے میں بہت خوبصورت کرسی بن گئی ـپھر مجھے ایک دن بھی دکان پر نہ رکنا پڑا اور وہاں سے مجھے کوئی خرید کر لے گیا اور ایک نواب صاحب کو میں بہت پسند آئی ـ

وہ روزانہ مجھ پر بیٹھ کر اخبار پڑھتا – نواب صاحب بھی کافی موٹے تازے تھے ان کے وزن سے میری کمر ٹوٹ جاتی ـمیں کافی بوڑھی ہوگئی اور میرے گھٹنے بھی جواب دے گئے ـ ایک دن نواب صاحب کے مہمان آئے ان کے بچے بہت شرارتی تھے وہ مجھ پر بہت ناچے میں بہت چلائی مگر کسی کو کوئی اثر نہ ہوا ـ ناچنے کی وجہ سے میری ٹانگ ٹوٹ گئی اور ان کا بچہ منہ کے بل گرا ـ وہاں سے ایک عورت مجھے لے گئی اور میں پھر وہی اسی لکڑیوں کے ڈھیر پر چلی گئی جو جلا نے کے لئے رکھی جاتی ہیں ۔

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

جستجو

دنیا میں جستجو کا کوئی وجود نہیں ہوتا اگر انسان کی قسمت میں صرف خوشیاں ہوتی ۔ امید کون کرتا حسرتیں کس کی ادھوری رہتی کوشش کا مقام نہ ہوتا۔ سب مکمل ہو جاتے تو پھر ادھورا کون رہتا ۔ ایسا ہوتا تو سب کا مقدّر پھول ہوتے۔ پھر کانٹون کو کون پوچھتا سب کو ساتھی مل جاتے۔ تو پھر تہائیاں کس کا مقدّر ہوتیں ۔.

اریبہ خلیل کلاس ہفتم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول 94 ٹی ڈی اے

بلبل کا گھونسلہ

ایک باغ میں ایک بلبل اپنے دو بچوں کے سا تھ ایک سو کھے درخت پر رہتی تھی -اس درخت پر کبھی پھل نہیں آیا تھا-ایک دن با غ کا ما لک آ گیا اور ما لی کو بلا کر پوچھا کہ اس سوکھے درخت کا کیا کرنا ہے؟اسے حکم دیا کہ اس درخت کو کا ٹ کر اس کی لکڑیا ں میرے گھر بھیج دو اور اس کی جگہ نیا درخت لگا دو-یہ کہہ کر ما لک با غ سے چلا گیا -بلبل اس وقت خوراک کی تلا ش میں با ہر گئی ہو ئی تھی -جب وہ واپس آئی تو بچوں نے اسے سار ی بات بتا ئی اور کہاکہ ہم بہت پریشا ن ہیں – اب ہم کہاں جا ئیں گے؟ بلبل نے کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ما لک نےصرف ما لی سے کہا ہے اور

ما لی بہت کاہل ہے وہ کبھی درخت نہیں کا ٹے گا- جب دوسری صبح ہوئی ، مالی آیا درخت کو پا نی دیا اور چلا گیا -جب اگلے دن بھی ما لک نے درخت کو نہ کا ٹا پا یا تو مالی کو بلا کر پوچھا -اس نے جواب دیا کہ وہ سا را وقت پودوں کو پا نی دینے میں مصروف رہا اور درخت کا ٹنے کا وقت نہ ملا-

مالک نے کہا کہ کل میں دوسرا ما لی بھیج دوں گا جو درخت کو کا ٹ دے گا-بلبل جب خوراک لے کر واپس آئی تو بچوں کو پریشان پا یا -انہو ں نے ما ں کو بتا یا کہ آج پھر با غ کا مالک آیا اور دوسرے مالی کو درخت کا ٹنے کا کہا -بلبل نے کہا کہ میرے بچوجو آدمی اپنا کام دوسروں پر چھوڑتا ہے تو وہ کام کبھی پورا نہیں ہوتا اس لیے کل کا دن بھی ہما را ہے-اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا کوئی آدمی درخت کاٹنے نہ آیا -تیسرے دن ما لک نے خود درخت کا ٹنے کا فیصلہ کر لیا اور ما لی کو حکم دیا کہ کل وہ خود آ کر درخت کا ٹے گا-بچے یہ بات سن کر پریشان ہو گئے -جب ان کی ماں آئی توانہوں نے سا را ماجرا کہہ سنا یا تو بلبل نے کہا میرے بچو اب یہاں سے چلو کیونکہ ما لک نے خود کا م کرنے کا ارادہ کر لیا ہے وہ کل ضرور آکر درخت کا ٹے گا-

اس طرح بلبل کی عقل مندی کی وجہ سے سب دوسری جگہ منتقل ہو گئے -دانش وروں نے درست فرمایا کہ جو اپنا کام دوسرے کے آسرے پر چھوڑتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اس لیے ہر انسان کو اپنا کام خو د کرنا چا ہیے-

خدیجہ کرن

کلا س دہم

گورنمنٹ گرلز ہا ئی سکول جمن شاہ

کہا نی: بچے کی تلا ش

عبیرا ملک

نا م طالبہ

نہم

جما عت

سکول کانام:گورنمنٹ گرلز ھا ئ سکول124/ٹی ڈی ا ےلیہ

ریل گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار جھٹکا لگا اور ریل گاڑی جنگل کے بیچوں بیچ رُک گئی۔سارے مسافر پریشانی کے عالم میں ریل گاڑی سے اُتر گئے اور آگے انجن کی طرف بڑھ گئے،تاکہ رکنے کی وجہ معلوم کر سکیں۔

شہاب الدین بھی اپنے بیٹے فیضان کے ساتھ نیچے اُتر گیا جو پچھلے دس گھنٹوں سے اپنے بیٹے بیوی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔معلوم ہوا کہ انجن کی خرابی تقریباً ایک گھنٹے میں ٹھیک ہو گی۔
انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔سب لوگ اِدھر اُدھر جنگل میں چلے گئے،تاکہ یہ ایک گھنٹہ کسی طرح سے گزر جائے۔

شہاب الدین بھی انہی کے ساتھ جنگل کی طرف چلا گیا۔
جنگل میں کچھ دور جانے سے ان کو ایک نہر دکھائی دی،جس کے ساتھ پھل دار درخت بھی تھے۔

سب نے جا کر خوب پانی پیا اور جنگلی پھلوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ اچانک شہاب الدین نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں اور پھر چیخنے لگا:”میرا بیٹا کہاں گیا؟“سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے بیٹے کے غائب ہونے پر کچھ لوگ اس کی تلاش میں جنگل میں چلے گئے۔

ایک گھنٹہ ڈھونڈنے کے باوجود ان کا بیٹا کسی کو نظر نہیں آیا،جس کی وجہ سے سارے مسافر پریشان ہو گئے۔شہاب الدین کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑی بن گئی تھی۔مسافر تسلی دے رہے تھے۔کوئی کہہ رہا تھا کہ جنگل میں گم ہوا ہو گا۔کسی نے کہا کہ شیر نے اس کو اپنی خوراک بنایا ہو گا۔

شاید پانی میں ڈوب گیا ہو گا۔سارے لوگ پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ آخر کہاں گیا ہو گا؟شہاب الدین رو رو کر دعائیں مانگ رہا تھا۔
انجن ایک گھنٹے کے بعد ٹھیک ہو گیا اور ڈرائیور نے سب مسافروں کو ریل گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔

شہاب الدین لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے ڈبے میں داخل ہوا۔جونہی وہ اپنے ڈبے میں داخل ہوا تو اگلا لمحہ حیران کن تھا اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ان کا بیٹا برتھ پر مزے کی نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔اس نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے سب مسافروں کو بلایا اور انھیں بھی اپنی خوشی میں شامل کر لیا۔

بیوی نے بتایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ گیا ہی نہیں تھا۔اس نے اپنے بیٹے کو جگایا اور گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ سب نے کہا بچہ بغل میں ڈ ھنڈ و را شہر میں۔

عنو ا ن: کہا نی بڑ وں کی مدد

رو بینہ بی بی

نا م طالبہ

نہم

جما عت

سکول کانام:گورنمنٹ گرلز ھا ئ سکول124/ٹی ڈی ا ےلیہ

جب بھی کوئی بات سمجھ نہ آ رہی ہو تو اپنے بڑوں سے مدد لے لینی چاہے۔

”انوشا،انوشا بیٹے !آپ جواب کیوں نہیں دے رہی ہیں؟“امی نے انوشا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔مگر امی یہ دیکھ کر پریشان ہو گئیں کہ وہ بیڈ پہ بیٹھی رو رہی ہے اور ساتھ ہی اُس کی ٹوٹی ہوئی پنسل اور پھٹی ہوئی کاپی پڑی ہے

پیارے بچو!کیا آپ کو پتہ ہے کہ انوشا کون ہے اور وہ کیوں رو رہی ہے

انوشا ایک بہت اچھی اور ذہین بچی تھی۔وہ ہر جماعت میں اول آتی تھی۔آج کل بھی اُس کے چوتھی جماعت کے
امتحانات ہو رہے تھے اور کل اُس کا ریاضی کا پیپر ہے اور وہ بہت محنت سے اپنے پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔

اُس نے سب سوالوں کی تیاری کر لی تھی مگر آخر کے کچھ سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے۔اُس نے خود سے سمجھنے کی بہت کوشش کی مگر پھر بھی سمجھ نہ آئے۔

اس پر اُس نے غصے میں آ کر اپنی پریکٹس کاپی پھاڑ دی اور قلم بھی نیچے پھینک دیا۔جب اُس کی امی انوشا کے کمرے میں اُسے دودھ دینے کے لئے آئیں تو اُنہوں نے دیکھا کہ انوشا بیڈ پہ بیٹھی ہوئی ہے،اُس کی کاپی پھٹی ہوئی ہے اور قلم ٹوٹا ہوا ہے تو اُنہوں نے وجہ پوچھی۔

انوشا نے ساری بات اُن کو بتا دی۔
امی نے انوشا کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے بچوں کی مدد اور رہنمائی کے لئے اُن کے بڑوں کو بنایا ہے۔اس لئے جب بھی کوئی بات سمجھ نہ آ رہی ہو تو اپنے بڑوں سے مدد لے لینی چاہئے۔
یہ سن کر انوشا بہت خوش ہوئی اور کاپی،قلم لے کر اپنی امی کے پاس بیٹھ گئی۔اُنہوں نے تمام سوالات باآسانی انوشا کو سمجھا دیئے۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بڑوں،بزرگوں کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے ہر کام میں ان کی مدد لینی چاہیے۔

گندم کے بیج کی آپ بیتی

میں گندم کا ایک بیج ہوں۔ مجھے ایک کسان نے ایک دکاندار سے خریدا۔ اس نے مجھے اپنے کھیت میں بو دیا۔ اس وقت میں مٹی میں دب گیا تو مجھے یوں لگا جیسے میری زندگی اب ختم ہو گئی۔ لیکن پھر جب مجھے پانی ملا تو سکون محسوس ہوا۔ کسان نے بہت محنت کی وقت پر پانی ر کھاد دی۔یوں کچھ ہی دنوں میں میں نے زمین سے باہر جھانکنا شروع کیا اس وقت میں بیت چھوٹا تھا۔ لیکن میں بہت خوش ہوا۔ یوں ہی دن گزرتے رہے میں بڑھتا رہا۔ کسان میرا بہت خیال رکھتا رہا۔ میرا تنا بڑا ہوتا گیا نئے نئے پتے نکلتے رہے۔ جب ہوا چلتی تو میں ہوا کے ساتھ کھیلتا اور جھومتا۔بارش کے موسم میں نہاتا بہت اچھا لگتا۔ سخت سردی پڑتی تو مجھے بہت سردی لگتی،میرے پتے پیلے ہونے لگتے۔لیکن پھر موسم بدلنے کے بعد میں خوش تھا اور کسان مجھ سے بہت خوش تھا۔ سردی کے بعد بہار کا موسم بہت سہانا تھا۔ پھر گرمی شروع ہوئی آ ہستہ آہستہ دھوپ کی تپش بڑھنے لگی۔میں بھی بڑا ہو چکا تھا اور میرا سبز رنگ کا سٹا نکل آیا بارشیں ہوئیں تو میں اور بھی مضبوط ہو گیا۔ اب تپش بڑھنے لگی جس کی وجہ سے میرا رنگ سبز سے پیلا ہونے لگا۔ سب سے پہلے میرے پتے پیلے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے مجھے منہدی لگائی جا رہی ہو۔ بھلا گندم کو کون مہندی لگاتا ہے یہ سب میرا وہم تھا بعد میں پتا چلا یہ سب تو سورج کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اور میں بہت جلد پورا کا پورا پیلا ہو گیا۔میرے سٹے میں موجود دانے جو بہت نرم تھے اب وہ بھی سخت ہو چکے تھے۔اور گرمی کی شدت سے پیلے ہو رہے تھے۔ سردی کی طرح گرمی نے بھی مجھے بہت تنگ کیا لیکن یہ گرمی ہی تو تھی جس نے میرے سٹے میں موجود دانوں کو بلکل ویسا بنانا تھا جیسا میں تھا۔اب میری فصل پک چکی تھی میرے اندر مجھ جیسے کئی دانے بن چکے تھے۔کسان بہت خوش تھا۔اور اسکی خوشی دیکھ کر میں بہت خوش تھا۔ پھر کیا ہوا کی ایک دن کسان نے مجھ پہ ظلم کا پہاڑ توڑ دیا۔ مجھ پہ درانتی چلا دی اور پھر مجھ سمیت میرے تمام ساتھیوں کو کاٹ ڈالا اور ہمیں گڑھوں میں باندھ دیا۔ ابھی تو اور امتحاں باقی تھے اب ہم سب کو مشین میں ڈال دیا گیا جہاں میرے سٹے سے سارے دانے الگ ہو گئے۔ مجھے بہت درد سہنا پڑا مگر انسانوں کی خوشی دیکھ کر میں اپنا سارا درد بھول گیا۔ میں اپنے رب کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے کسی کا پیٹ بھرنے کا، کسی کی مزدوری کا ذریعہ بنایا ہے۔ اب میرے جیسے دانوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔اب پھر ہم میں سے کچھ کو دکان پہ فروخت کیا گیا اور کچھ کو گھر میں آٹے کے لیے رکھا گیا۔ یہ تھی میری مختصر سی زندگی جو بیج سے شروع ہو کر پھر بیج پر ختم ہو گئی۔ اب پھر سے ہم میں سے کچھ چوبارہ اس پراسس سے گزریں گے اور کچھ کو مزید امتحان دینے ہونگے آٹے کے لیے چکی میں پسنے کا درد سہنا ہو گا۔ اور پھر توے کی جلن سہنی ہوگی۔ مگر میں اللّٰہ کی رضا پی راضی ہوں۔ آپ سب سے بھی التماس ہے اس کی رضا میں راضی رہیں۔ بیشک وہی ہم سب کا خالق و مالک ہی۔

ارم شہزادی کلاس ہشتم

160/TDAگورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری سکول

محنت میں عظمت

کسی زمانے میں ایک ملک کے باشندے بہت کاہل تھے۔وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے،دن بھر سونا پانے کی اُمید میں زمین کھودتے تاکہ مالا مال ہو جائیں۔برسوں تک وہ اسی طرح زمین کھودتے رہے لیکن انہیں کچھ نہ مل سکا۔

یہی وجہ تھی کہ وہاں کے باشندے بہت پریشان رہتے کیونکہ وہاں کا بادشاہ دولت چاہتا تھا اور دولت نہ ملنے کے سبب اس کا مزاج چڑچڑا اور غصیلا ہو گیا تھا۔
ایک دن وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا جو بہت ہنس مکھ اور ذہین تھا۔وہ اسی راستے سے ایک گیت گاتا جا رہا تھا جہاں سونا حاصل کرنے کے لئے لوگ زمین کھود رہے تھے۔

جب ان لوگوں نے اسے دیکھا تو بولے،”گانا مت گاؤ۔ہمارا بادشاہ بہت ہی غصیلا ہے وہ تمہیں قتل کروا دے گا“۔نوجوان ہنس کر بولا:”مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔لیکن تم مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چلو“۔لوگوں نے زمین کی کھدائی بند کر دی اور اس آدمی کو لے کر بادشاہ کے پاس جانے لگے۔
راستے میں انہوں نے اس سے پوچھا ”تمہارا نام کیا ہے؟“ ”مزدور،“اس آدمی نے جواب دیا۔”تم گیت کیوں گا رہے تھے؟“اس نے جواب دیا”کیونکہ میں بہت خوش ہوں“۔انہوں نے پوچھا،”تم خوش کیوں ہو؟“اس نے بتایا”میرے پاس بہت سونا ہے“اتنا سنتے ہی سب لوگ خوشی سے اُچھل پڑے۔

انہوں نے بادشاہ کے پاس لے جا کر اسے ساری بات بتا دی۔بادشاہ نے اس آدمی سے پوچھا،”کیا یہ سچ ہے کہ تمہارے پاس بہت سارا سونا ہے؟“”ہاں،“نوجوان نے جواب دیا”میرے پاس سونے کی سات بوریاں ہیں“۔
بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس آدمی کے ساتھ جا کر سونے کی ساتوں بوریاں لے آؤ۔

بادشاہ کا حکم سن کر نوجوان نے کہا،”سونے کو لانے میں کافی وقت لگے گا کیونکہ وہ ایک ایسے غار میں رکھا ہوا ہے جس کی دیکھ بھال سات دیو کر رہے ہیں۔آپ اپنے ان آدمیوں کو میرے ساتھ ایک سال تک رہنے کی اجازت دیں،اس عرصہ میں ہم وہ سونا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے“۔نوجوان کی بات ماننے کے علاوہ بادشاہ کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔اس لئے اس نے اپنے بہت سے آدمی گھوڑے اور بیل اس نوجوان کے ساتھ بھیج دیئے اور جاتے وقت اس کو ہدایت کی،”اگر تم سال کے آخر تک سونا لانے میں ناکام رہے تو تمہارا سر دھڑ سے الگ کر دیا جائے گا“۔

اس نوجوان نے ان لوگوں کو سلطنت کی زرخیز زمین جوتنے کے لئے کہا۔جب زمین تیار ہو گئی تو اس نے اس میں گیہوں کے بیج بوئے۔ایک سال بعد فصل تیار ہو گئی تو اس نے اس کی کٹائی کرائی جس کے بعد اس کے پاس منوں گندم جمع ہو گئی،جسے گھوڑوں پر لدوا کر وہ بادشاہ کے سپاہیوں کو ساتھ لے کر محل کی طرف روانہ ہوا۔

چلتے چلتے وہ لوگ ایسے مقام پر پہنچے جہاں قحط پڑا ہوا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کے باشندوں نے وہ سارا گیہوں ہاتھوں ہاتھ خرید لیا۔اس کے بدلے میں اس نوجوان کو سونے کی سات بوریاں مل گئیں۔جنہیں لے کر وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔

اسے دیکھ کر بادشاہ نے اس سے پوچھا،”کیا تم سونا لے آئے؟“نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا،”جی ہاں!“میں نے”گیہوں بیچ کر سونا حاصل کیا ہے“۔اس کے ملازموں نے جب اسے پوری کہانی سنائی تو وہ بہت خوش ہوا لیکن اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا۔

اس نے اپنی رعایا کو کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔کچھ سالوں بعد ہی ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوا تو اس نے نوجوان کو دوبارہ اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے کہا،”ہم تمہارے بہت شکر گزار ہیں۔تم نے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی ہے،ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے ہی ساتھ رہو“۔

نوجوان نے بادشاہ کی بات سن کر کہا کہ”اس دنیا میں ابھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو محنت کی عظمت کو نہیں سمجھتے،مجھے ان کے پاس جا کر انہیں بھی راہ راست پر لانا ہے لہٰذا مجھے اجازت دیں مجھے افسوس ہے میں یہاں نہیں رُک سکتا“۔بادشاہ نے نوجوان کو بے شمار تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔

مزاحیہ نظم

کالج میں تھے اک پروفیسر

علم کے جن کا رعب تھا سب پر

بے حد لائق بےحد قابل

علم ریاضی میں تھے کامل

لو گ سوال جو لے کر آتے

حل کر دیتے چٹکی بجاتے

ذہن پر انکے بو جھ بہت تھے

رہتے تھے کھوۓ کھوۓ

اک دن آپ پہن کر آۓ

پاؤں میں دو رنگ کے موزے

اک تھا پیلا اک تھا نیلا

اس پر اک استاد نے ٹوکا

حضرت یہ کیوں حضرت یہ کیا

اک مو زا نیلا اک پیلا

بولے آپ نے سچ فر مایا

مجھ کو بھی تھا اس پہ اچھنبا

آج ہی میں نے گھر میں دیکھی

ایسی ہی اک اور جو ڑی

اس کا بھی پاؤں تھا پیلا

اور اک بلکل ایسا نیلا

جانے گھر میں کہاں سے

یہ دو رنگ کے دو دو موزے

نام زنیرہ کنول کلاس ششم

گو رنمنٹ گرلز ہائی سکول چکنمبر 250 ٹی ڈی اے

ایمس کوڈ: 32220071

مصوری

WhatsApp Image 2022-03-02 at 12.17.28 PM.jpeg

نام : نورفاطمہ

کلاس: ششم

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چکنمبر 250 ٹی ڈی اے

ایمس کوڈ: 32220071

مصوری

WhatsApp Image 2022-03-03 at 8.49.11 AM.jpeg

نام: مر یم ایمان

کلا س: نہم

گورنمنٹ گر لز ہائی سکول چکنمبر 250 ٹی ڈی اے

ایمس کوڈ: 32220071

مصوری

گورنمنٹ گرلز ہا ئ سکول کوٹ سلطان لیہ

موت

سب سے پہلے انسا ن سے اس کا نام چھین لیا جا تا ہے۔ جب دفنانہ ہو تو کہتے ہیں کہ جنا زہ لے آؤ۔ انسا ن کے دوست آس پاس کے لوگ آتے ہیں دکھ میں شر یک ہوتے ہیں اور چلے جا تے ہیں۔ لیکن سب سے زیا دہ دکھ انسان کے اپنے گھر والوں کو ہوتا ہے اور یہ غم چند ہفتوں یا چند ماہ کا ہوتا ہے ۔ پھر اس کی با توں کو یا دوں میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر دنیاوی کا موں اور باتوں میں اس طرح مشغول ہو جا تے ہیں کہ اپنا ہوش تک نہیں رہتا۔ جبکہ دوسروں کو یاد کرنا تو دور کی بات ہے ۔

انسان کو دنیا میں اس قدر دل نہیں لگانا چاہیے کیونکہ زندگی عارضی ہے اور پانی کا ایک بلبلہ ہے۔ آخرت کی زندگی ہی ابدی زندگی ہے اس ابدی زندگی کے لیے ہمیں ہر وقت تیا ر رہنا ہے۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اگر کسی شخص کی نیکیاں برائیوں سے زیادہ ہوں گی تو وہ جنت کے با غوں میں ہو گا اور جس کی برائیاں نیکیوں سے زیادہ ہوگی تو اس کا ٹھکا نا جہنم ہے جو کہ بہت ہی بری جگہ ہے۔جب ایک طالب علم کے پیپرز نزدیک آجاتے ہیں تو وہ ڈٹ کے محنت کرتا ہے تا کہ وہ ناکا م نہ ہو جاۓ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ہمارا امتحان لے رہا ہے اللہ تعالیٰ کا امتحان پاس کرنے کے لیے ہمیں آداب معاشرت اور نماز، روزہ اور زکوۃ کی پابندی کرنی چا ہیے۔ قرآن پاک سمجھ کر پڑھنا چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکیں ۔ سکولوں میں اس بار ناظرہ پڑھانے کے لیے ہم اپنی گو رنمنٹ کے شکر گزار ہیں ۔

نہ کر بندیا میری میری

نہ اے میری تے نہ تیری

آخر ملنی خاک دی ٹیری

نام : دیا بتول

کلاس : نہم

گورنمنٹ گر لز ہائی سکول چکنمبر 250ٹی ڈی اے

ایمس کوڈ: 32220071

اریبہ بی بی جماعت نہم

ناشکرا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر میں ایک لڑکا رہتا تھا اس کا نام جمال تھا ۔ گھر میں وہ اس کی بیوی اور نوکرانی رہتی تھی ۔ وہ ہر وقت اپنی بیوی کو سب کے سامنے شرمندہ کرتا اور اس کی بےعزتی کرتا ۔ ایک دن اس کی بیوی نے کھانا بنایا اور اس کے سامنے پیش کیا تو اس نے کہا کہ میری روٹی پر گھی تھوڑا ہے زیادہ گھی لگایا کرو سو مرتبہ کہا ہے ۔ یہ سن کر بیوی نے دوسری روٹی بنائی اس نے اس سے بھی انکار کردیا اور پھینک دی اورکہا کہ یہ جلی ہوئی روٹی میں نہیں کھاتا ۔ جا کر بازار سے روٹی کھا لوں گا اور پھر چلا گیا ۔

جاتے جاتے راستے میں گاڑی خراب ہوگئی ۔اس کو اپنا والٹ کار میں بھول گیا اور وہ مکینک کو بلانے چلا گیا ۔ابھی تھوڑا دور گیا تھا کہ اس کی کار سے اس کا والٹ چوری ہو گیا ۔وہ مکینیک لایا اور کار دکھائی اس نے پیسے مانگے کچھ سامان لانا پڑے گا جب اس نے دیکھا تو والٹ نہیں تھا ۔ اس نے کہا کہ بھائی گاڑی ٹھیک کر دو پیسے بعد میں لے لینا تو اس مکینک نے بھی جواب دے دیا ۔ اب بھوک سے مر رہا تھا دوست کے گھر گیا تو وہ شہر چھوڑ کر جا چکا تھا ۔

اب اس کی جیب میں پچاس روپے تھے ۔ اس نے بڑی مشکل سے جاکر ایک ہوٹل والے سے کہا کہ بھائی احسان کرو اور ساٹھ روپے والی پلیٹ پچاس میں دے دو ۔ہوٹل والے نے دے دی اچانک ایک شخص کا بازو لگا اور وہ پلیٹ گر کر ٹوٹ گئی ۔ ہوٹل والے نے پچاس روپے تو لے لیے تھے اب اس نے کہا کہ پلیٹ کا جرمانہ دو لیکن جمال کے پاس کچھ نہ تھا اس نے جمال کی بےعزتی کر کے ہوٹل سے نکال دیا ۔اب وہ مرتے مرتے گھر پہنچا تو وہاں بیوی گھر چھوڑ کے گھر جا چکی تھی ۔ ایک آدمی نے چابی دی اور کہا کہ آپ کی بیگم ناراض ہو کر چلی گئی ہیں۔ اس نے دروازہ کھولا اور وہ روٹی جو پھینک کر گیا تھا مٹی والی روٹی اٹھا کر کھانے لگا ۔ اتنے میں بیوی بھی آ گئی انہوں نے جمال سے کہا کہ وہ روٹی نہ کھائیں میں اور بنا دیتی ہوں مگر جمال نے کہا میں نے روٹی کو ٹھکرایا تھا روٹی نے مجھے جگہ جگہ ٹھکرایا ہے میں بھی یہی روٹی کھاؤں گا -اس کے بعد جمال نے اللہ سے ناشکری کرنے کی توبہ کرلی اور پھر سے اپنی بیوی کے ساتھ رہنے لگا۔

طالب علم : تانیہ نذیر

کلاس: دہم (اے)

ایم ایس کوڈ:32230047

سکول نام: گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 137ٹی ڈی اے لیہ

نظم لمحہء فکر

اے بشر اے بشر

ہے یہ لمحہ ءفکر

باہر ہے وبا کاڈر

اندر بھوک کا خطر

اولاد آدم ہے در بدر

نہ دواؤں میں کوئی اثر

نہ دعاؤں کا کوئی ثمر

ہے یہ لمحہ ءفکر

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *