سفید بکری
عزیز کی منزل میں چند بچے سیڑھیوں کے نیچے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ سب کی نظر دروازے پرلگی تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک بکری دروازے سے اندر داخل ہوئی اوراِدھر اُدھرد دیکھتی ہوئی صحن کی طرف چلی گئی۔وہ گرمیوں کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی۔ سب سڑکیں، گلیاں سنسان ہوگئی تھیں۔ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے۔ ایسے میں عزیز کی منزل میں چندبچے سیڑھیوں کے نیچے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ سب کی نظر میں کھلے دروازے پرلگی تھیں۔کچھ دیر بعد ایک بکری دروازے سے اندر داخل ہوئی اوراِدھر اُدھرد دیکھتی ہوئی صحن کی طرف چلی گئی۔ سیڑھیوں کے نیچے چھپے بچے ایک دم باہر نکل کر دروازے کی طرف بھاگے اوردروازے کو اندر سے بند کر دیا۔ بکری گھبرا کر ادھراُدھر بھاگی ایک بچہ چھلانگ لگا کر بکری پر سوار ہو گیا۔ایک بچے نے چھڑی سے بکری کو مارا۔ بکری بھاگی تو سب بچے شور مچاتے اس کے پیچھے بھاگے۔عزیز کی منزل میں ہر روز یہ تماشا ہوتا تھا۔ گرمی کی ستائی کوئی بکری وہاں پناہ لینے آجاتی تو شریر بچوں کے ہتھے چڑھ جاتی۔بچے جی بھر کے بکری پر سواری کرتے ،کبھی وہ اس کا دودھ بھی نکال لیتے۔
عزیزی منزل کے سامنے بڑا سا پلاٹ برسوں سے خالی پڑا تھا۔ اب یہاں ایک پلازہ بن رہا تھا۔ بہت سے خانہ بدوش یہاں مزدوری کرتے تھے۔ انھوں نے کھلے میدان میں اپنی جھونپڑیاں بنالی تھیں۔ ان خانہ بدوشوں کی عورتیں بھی مزدوری کرتیں،ننگ دھڑ نگ بچے سارادن میدان میں کھیلتے رہتے۔
انہی خانہ بدوشوں کی بکریاں گرمی سے گھبرا کر عزیز کی منزل میں آ جاتیں اور پھر بچے ان کابرا حشر کردیتے۔
ایک دوپہر بچے حسب عادت گھات لگائے بیٹھے تھے کہ ایک بکری اندر آئی۔ بکری کے سارے جسم پر چاندی جیسے سفید بال تھے۔ بچوں نے نعرہ لگایا اور دو بچے اِکٹھا بکری پر سوار ہو گئے۔
ایک بچے نے جیسے ہی بکری کی دُم پکڑ کے زور سے کھینچی ، بکری ایک دَم اچھلی۔ بکری کے اوپر بیٹھے دونوں کے بچے گر پڑے۔ اچانک بکری کا قد بڑھنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بکری کا قد ایک گائے کے برابر ہو گیا۔ یہ دیکھ کربچے خوف زدہ ہو گئے اور گھبرا کر وہاں سے بھاگنا چاہا مگر بکری نے کسی بچے کو بھاگنے کا موقع نہیں دیا۔
اس نے سر جھکایا اور ایک بچے کو زور سے ٹکر مار دی۔ بچے اُچھل کر دور جا گرا۔ بکری نے اپنی اگلی ٹانگوں سے دو بچوں کو دھکیل دیا۔ جیسے ہی کوئی بچہ بھاگنے کی کوشش کرتا، بکری اسے ٹکر مار کر گرادیتی اورپھر اپنے کھروں سے کچل دیتی۔
بکری نے مار مار کر ان شریر بچوں کا برا حال کر دیا۔ جب بچے پے در پے لگنے والی چوٹوں سے نڈھال ہو کر گر پڑے تو بکری کا قد چھوٹا ہونے لگا۔ جب اس کا قد عام بکری جتنا ہو گیا تو وہ چپکے سے باہر نکل گئی۔بچوں کی چیخیں سن کر گھر کے بڑے جاگ اٹھے۔ جب وہ وہاں پہنچے بچے درد سے کراہ رہے تھے۔ بڑوں کے پوچھنے پر بچے خوف کے مارے کچھ نہ بتا سکے۔جس وقت عزیزی منزل میں یہ تماشا ہوا، کچھ راہ گیر محلے داروں نے ایک سفید داڑھی والے بزرگ کو عزیزی منزل سے نکلتے دیکھا۔ ان بزرگ کے بال چاندی کی طرت سفید تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بزرگ کون تھے مگر وہ عزیز ی منزل کے بچوں کو ایسا سبق دے گئے تھے کہ آئیندہ وہاں پناہ لینے والی کسی بکری کو کسی بچے نے تنگ نہیں کیا۔
رابعہ بی بی | نا م طالبہ |
نہم | جما عت |
سکول کانام:گورنمنٹ گرلز ھا ئ سکول124/ٹی ڈی ا ےلیہ |
منظور کسان کی کہانی
کہانی
ایک دفاعی کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا اس کا نام منظور تھا۔گاؤںکے لوگ اسے منظور کسان کے نام سے پکارتے تھے۔وہ سارا دن کھیتی باری میں گزارتا تھا ۔اسے اپنی زمین سے بہت لگاؤ تھا۔ایک دن جبکہ وہ اپنے کام میں مصروف تھااسکےپاس ایک بوڑھا آدمی آیا جس نے اسے بتایا کہ نزدیک کے گاؤں میں لوگ تھوڑی سی زمین بیچ کر زیادہ زمین خرید رہےہیں منظورے کے دل میں خیال آیا کہ میں بھی تھوڑی سی رقم دے کر زیادہ زمین حاصل کر سکتا ھوں۔
اس نے اگلے دن اس گاؤں جانے کا ارادہ کیا۔اگلی صبح وہ اپنی
گدھاگاڑی پہ سوار گاؤں پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ لوگ رقم دےکر نہیں بلکہ دوڑ کے مقابلے سے زمین حاصل کر رہےتھےکہ جو جتناذیادہ بھاگ سکے گا وہ اتنی ہی زمین حاصل کرسکے گا۔منظورے کے پاس جتنی بھی جمع پونجی تھی وہ اس نے زمین حاصل کر نے کے لیے لگا دی اور دوڑ کر زمین حاصل کر نے کے لئے راضی ہو گیا۔گاوں کے سرپنچ نے بتایا کہ دوڑ سورج طلوع ہوتے ہی شروع ھوگی اور تمھیں سورج غروب ھونے سے پہلے پہنچناہو گا۔اسے ساری رات نیند نہ آئی۔ آ خر کار صبح ھوئ منظور ے کسان نے کھانے پینے کا سامان ساتھ لیا۔جیسے ہی دوڑ شروع ہوئی دوڑنا شروع ہوا اور دوڑتا رھا ۔کچھ دیر بعد اسے پیا س محسوس ہوئ۔پر وہ زیادہ زمین کے لالچ میں بغیر کھائے
پئے دوسرا رھا یہاں تک کہ اسے یہ بھی بھول گیا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے وآپس جانا ہے۔جب اسے اسے واپس ی کا خیال آیا تو سورج غروب ہونے والا تھا۔سارا دن بغیر کھائے پیئے دوڑتے رھنے سے جب وہ جیت کے مقام تک پہنچا تو گرا اور پھر نہ اٹھ
سکا۔یوں لالچ میں اسکے پاس جو کچھ تھا اسے بھی گنوا دیا۔
صفیہ بی بی کلاس دھم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کوٹلہ قاضی لیہ