kids-stories

وہ کون تھا

آج سے پانچ سال پہلے میں چوکیدار تھا۔میری ڈیوٹی شہر کے ایک بازار میں لگی تھی۔میں رات 8سے صبح8تک ڈیوٹی کرتا تھا۔ایک رات ایسا واقعہ ہوا جس کی وجہ سے میں نے نوکری چھوڑی ۔جنوری کے آخری ایام چل رہے تھے۔رات 2بجے کا وقت تھا تو مجھے تھوڑی سی اونگھ آگئی۔

ڈھائی بجے کے قریب میری آنکھ کسی گاڑی کی آواز سے کھلی۔میں نے دیکھا کہ ایک پرانے ماڈل کی گاڑی دور سے آرہی ہے۔میں چوکنا ہو کر بندوق سنبھال کر بیٹھ گیا۔

گاڑی میرے قریب سے گزری تو میں نے گاڑی اور گاڑی والے کا جائزہ لیا۔

ایک آدمی ہیٹ اور کوٹ پہنے ہوئے تھا اور ڈرائیونگ کررہا تھا۔

ہیٹ کا اگلا حصہ کافی نیچے تھا۔اس کی آنکھیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ گاڑی میں کوئی اور فرد سوار نہیں تھا۔تھوڑی دور جا کر اس آدمی نے گاڑی روک دی۔وہ گاڑی سے اُترا اور میری طرف دیکھ کر اُنگلی سے مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔

جب میں اس کے قریب گیا تو اچانک اس آدمی کا قد بلند ہونا شروع ہو گیا اور چند سیکنڈ کے اندر اس آدمی کا قد اتنا بڑھ گیا کہ دوکانوں کی چھتوں سے بھی کئی فیٹ اوپر چلا گیا اور پھر اچانک اس آدمی نے میری طرف گردن موڑی۔خوف کے مارے گھگی بندھ گئی تھی۔

ایسے لگتا تھا جیسے ابھی میری موت واقع ہو جائے گی۔میرے ہاتھ پیر ٹھنڈے برف ہو گئے تھے۔اس نے میری طرف دیکھا۔اس کی آنکھیں چونے کی طرح سفید تھیں۔میں نے زور دار چیخ ماری اور جلدی سے ساتھ والی گلی میں گھس گیا۔اس نے میری کندھے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔

میں اپنا پورا زور لگا کر بھاگتا چلا گیا۔

پیچھے سے ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسے کوئی خونخوار جانور غرارہا ہو۔ایک دفعہ آواز آئی:”تمھارے پیسے گر گئے ہیں آؤ یہ لے لو اور پھر چلے جاؤ۔“

لیکن مجھے پتا تھا کہ یہ سب دھوکا ہے۔

وہ شیطانی مخلوق مجھے اپنے شکنجے میں جکڑ نا چاہتی ہے۔

میں گلیوں میں بھا گتا رہا۔آخر کچھ منٹ بعد اپنے گھر کے دروازے پر تھا۔میں نے اِدھر اُدھر دروازے کو پیٹا۔ساتھ ساتھ”بچاؤ بچاؤ“کی آواز بھی لگائی ۔میرے ذہن میں تھا کہ اگر وہ شیطانی مخلوق میرے پیچھے آبھی گئی تو بہت سے لوگوں کو دیکھ کر بھاگ جائے گی۔

میری کوشش رائیگا ں نہیں گئی۔محلے کے کئی افراد میرا شور سن کر دروازہ کھول کر گلی میں آگئے۔میری بیوی نے جلد ہی دروازہ کھول دیا۔میں بے دم ہو کر اندر گر پڑا۔محلے داروں نے مجھے اُٹھا کر کمرے میں بستر تک پہنچایا۔میں دیوانہ وار بول رہا تھا:“گھر کا دروازہ بند کرو،جلدی کرو،جلدی کرو۔

جلدی سے گھر کا دروازہ بند کر دیا گیا۔فرید چچا نے میرے لیے چائے بنوائی۔مجھے لحاف اوڑھایا گیا۔لحاف میں بیٹھ کر میں نے گرم گرم چائے پی تو اوسان بحال ہوئے۔آخر میں نے تمام لوگوں کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنایا۔تمام لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔بہر حال کچھ دیر بعد تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔میں نے شکر انے کے دو نوافل ادا کیے اور سو گیا۔اس واقعے کے بعد میں نے چوکیدار کی نوکری چھوڑ دی۔

محمد وقاص کلاس نہم جناح

گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاؤن لیہ 32230074

میر ے سکول کا پہلا دن

آج ہمارے گھر میں بہت رونق تھی۔ ماما نے مجھے صبح سات بجے ہی اٹھادیا تھا۔ کل رات کو ماما نے بتایا تھا کہ آج سے مجھے سکول جانا ہے۔ اس لیے اب مجھے رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔میں نے ماما سے پوچھا تھا کہ سکول کیا ہوتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ سکول وہ جگہ ہوتی ہے جہاں جا کر ہم لکھنا پڑھنا سیکھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں۔ میں نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ہم لکھنا پڑھنا کیوں سیکھتے ہیں، تو جواب میں ماما نے بتایا کہ ہم پڑھنا لکھنا اس لیے سیکھتے ہیں تاکہ ہم تعلیم یافتہ بن سکیں ۔ پھر میں نے ماما سے پوچھا کہ سکول میں کون لوگ ہوتے ہیں تو انہوں نے بتا یا وہاں بہت سے بچے ہوں گے جو میری طرح علم حاصل کرنے وہاں آئیں گے اور وہاں ٹیچرز بھی ہوں گے جو ہمیں تعلیم دیں گے۔

بابا میرے لیے نئی فراک لائے تھے۔ ماما نے مجھے بتایا کہ یہ میرا یونیفارم ہےجو مجھے روز پہن کر جانا ہوگا۔ ماما نے مجھے تیار کیا ، میں تیار ہو کر واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ بابا میرے لیے تھرماس اور لنچ باکس بھی لائے تھے۔ ماما نے لنچ باکس میں میرے لیے سینڈوچ بنا کر رکھے اور تھرماس میں پانی بھر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سکول میں جب میرا لنچ ٹائم ہوگا تو میں لنچ کھا سکوں گی اور جب مجھے پیاس لگے گی تو میں اپنے تھرماس میں صاف پانی بھی پی سکوں گی۔

مجھے اپنی یہ سب نئی چیزیں بہت اچھی لگیں۔ میں تیار ہو گئی تو بابا مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر سکول لے کر گئے۔ وہاں میری عمر کے بہت سے بچے تھے۔ ٹیچر صاحبہ مجھے اپنے ساتھ کلاس میں لے گئیں۔ سب بچے کلاس میں آکر بہت خوش تھے۔ ہم نے کلاس میں نظم پڑھی، ڈرائنگ میں رنگ بھرے، لنچ ٹائم پر سینڈوچ کھایا۔ یہ سب مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔

سکول کی چھٹی ہوگئی تو سب بچے لائن بنا کر باہر جانے لگے۔ ماما گیٹ پر آگئی تھیں۔ انہوں نے دیکھتے ہی میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بہت پیار کیا۔ میں گھر آئی تو سب میرا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔سب نے مجھے شاباش دی ، سب نے مجھ سے پوچھا کہ سکول میں میرا پہلا دن کیسا رہا۔ میں نے سب کو سکول کے بارے میں بتایا ، سب میری باتیں سن کر خوش ہوئے۔ میں بھی سکول سے گھر واپس آکر بہت خوش تھی۔ مجھے سکول جاکر بہت اچھا لگا۔ میں نے سوچا ہے کہ اب میں روزانہ سکول جایا کروں گی ۔ میں تعلیم حاصل کرکے اچھی انسان بنوں گی۔

رابعہ شوکت

ہشتم

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 336/TDA (لیہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *