حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کے پر کیوں کاٹ دیے
یہ گھوڑے آسمانوں پر کیا کرنے جاتے تھے؟ ناقابل یقین آرٹیکل
اڑنے والا گھوڑا جس کی رنگت دودھ کی طرح سفید اور نہایت ہی خوبصورت پر جو اسے باقی گڑوں سے منفرد برکتے ہیں یہ اڑنے والے گھوڑے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم لشکر کا حصہ تھے جو لشکر کی طاقت میں اضافہ کرتے تھے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کے پر کیوں کاٹ دیا
پرانے وقتوں میں گھوڑے بہت اہمیت رکھتے تھے کیونکہ یہ سواری کرنے اور جنگوں میں استعمال ہوتے تھے جب لوگ گھوڑے کی خرید و فروخت کرتے تو اس کے ساتھ خاص کاغذات نہیں رکھتے ان کاغزوں میں گھوڑے کے مالک اور موجودہ مالک ماں باپ تاریخ بتائش اور مکمل شجرہ نصب لکھا ہوتا تھا یہ دستاویزات گھوڑے کے اعلی نسل ہونے کا ثبوت ہوا کرتے تھے ان گھوڑوں کے رہنے کے لیے بڑے بڑے استبل اور دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے تھے گھوڑوں کی نسل کے بارے میں معلومات اور ان کی تربیت کرنا ایک فن اور مہارت کا کام تھا
روایتوں کے مطابق ملکہ صبا یعنی ملکا بلپریز کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا اڑنے والا تخت بہت پسند تھا
ایک دن ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ تخت پر بیٹھ کر دنیا کی سیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تخت کو حکم دیا کہ ملکہ کی خواہش پوری کرے لہذا تخت ہوا میں اڑتا ہوا ان سب کو ایک جزیرے پر لے گیا یہ جو زیرہ سات سمندروں کے درمیان میں تھا اس جزیرے کی سیر کرتے ہوئے ملکہ بلقیس نے بہت خوبصورت نایاب گھوڑے دیکھے جن کے پر تھے ان گھوڑوں نے جب سلیمان علیہ السلام اور ان کے لشکر کو دیکھا تو ڈر کر اڑ گئے ملکہ اور سلیمان علیہ السلام کو یہ گھوڑے بہت پسند ائے لیکن اب وہ ان کی پہنچ سے دور جا چکے تھے
لہذا حضرت سلیمان علیہ السلام نے واپس محل ا کر جنوں کو حکم دیا کہ وہ ان گھوڑوں کو پکڑ کر لائیں انہوں نے کہا ہم خشکی کے جن سمندروں اور دریاؤں پر اختیار نہیں رکھتے وہ گھوڑے سمندروں میں جا کر چھپ گئے
ان گھوڑوں کو سمندری جن ہی واپس لا سکتے حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا تو وہ جن رہا ہے اس پر جنوں نے بتایا کہ اس جن نے اپ کی اطاعت سے انکار کر دیا ہے اور اس سمندر کی تہ میں چھپ گیا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس جن کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا لہذا اپ علیہ السلام کے غلام جنہوں نے سمندر کے پاس جا کر اواز دی ہے جن تو جس بادشاہ کے ڈر سے چھپا ہے وفات ہو گیا ہے اس لیے تم باہر ا جاؤ اب تمام جن ازاد ہو گئے
جب سمندر کے اس جن نے اواز سنی تو وہ جن اپنے ساتھیوں سمیت سمندر سے باہر اگیا باہر اتے ہی اسے اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پیش کیا گیا حضرت سلیمان علیہ السلام کو دیکھ کر جن ڈر گئے اور کہا کہ اپ ہمیں سزا مت دیں ہم اپ کی اطاعت قبول کرتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جن سے کہا کہ میں نے سمندر کے درمیان ایک جزیرے پر پروں والے گھوڑے دیکھے تھے ان گھوڑوں کو پکڑ کر لہذا جب وہ گھوڑے اس جزیرے پر پانی بھی رہے تھے تو ان جنوں نے ان کو پکڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا
یہ گھوڑے نہایت ہی عالی نسل کے تھے جن کا نام جویاب تھا لفظ جیاد جید کے جس کے معنی تیز رفتار حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک عظیم الشان لشکر کا اس میں چنوں اور جانوروں اور انسانوں کے الگ الگ دستے ہوتے تھے لہذا حضرت سلیمان علیہ السلام نے اڑنے والے کوڑوں کا بھی ایک دستہ بنا دیا جو جنگوں میں اس لشکر میں اہم رول ادا کرتے اور فتح کو اسان بناتے تھے
یہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ شام کے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام ان گھوڑوں کو دیکھ رہے تھے اور ان کے بالوں اور سر پر پیار سے ہاتھ پھیر رہے تھے اپ علیہ السلام ان گھوڑوں کی دیکھ بھال میں کس قدر مصروف ہو گئے کہ سورج ڈوب گیا اور عصر کی نماز قضا ہو گئی اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبردار کیا کہ اے سلیمان اب دنیا کے بال کی محبت میں اتنے مصروف ہو گئے کہ نماز عصر بھی ادا نہ کر سکے
لہذا اللہ کو اپ کی یہ مشغولیت پسند نہیں ائی حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے توبہ کی اور سجدے میں گر کر دیر تک روتے رہے اور فرمایا کہ اس چیز نے مجھے اللہ کی یاد سے غافل کرے تو میں ایسی چیز نہیں رکھوں اپ کو اتنا دکھ ہوا کہ اپ نے ان گھوڑوں کے پر کٹوا لی تھی لہذا ان علی نسل کے گھوڑوں چاہیے اور اج تک ان کے پر پھر دوبارہ نہیں نکلی اور اس کے بعد اج تک اس دنیا میں اڑنے والے گھوڑے نہیں دیکھے گئے
اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی توبہ کو دور فرمائی اور انہیں گھوڑوں کے بدلے تیز رفتار ہوا پر اختیار دے دیا یہ ہوا بوڑوں سے کئی گنا زیادہ تیز رفتار یہ سلیمان علیہ السلام ایک مہینے کا سفر ایک دن میں طے کر لیا کرتے تھے قران پاک میں اس واقعے کا ذکر کچھ اس طرح کیا گیا ہے اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا فرمایا
خوب بندے تھے وہ خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے جب ان کے سامنے شام کو گھوڑے پیش کیے گئے جو چلے تو ہوا ہو جائے تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہو کر مال کی محبت اختیار کی یہاں تک کہ افتاب پردے میں جھک گئے ان کو میرے پاس واپس لے اؤ پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے
اسی طرح ایک حدیث روایت ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک یا خیبر کی جنگ سے واپس ائے تو گھر میں تشریف فرما ہوئے دیکھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کے کھیلنے کی گڑیا رکھی ہوئی اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا یہ کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میری گڑیا ہے تو اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا یہ اس کے بیچ کیا بنا ہوا ہے تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ یہ گھوڑا اور اس کے پر بنے ہوئے ہیں اور کہا کہ کیا ھے
تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ یہ گھوڑا اور اس کے پر بنے ہوئے ہیں اور کہا کہ کیا اپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پروں والے گھوڑے تھے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہنستے ہیں یہاں تک کہ اپ کے اخری دانت دکھائی دینے لگے