کیا تمہیں کوئی شک ہے کہ ڈاکو کون ہو سکتے ہیں؟
میں نے اللہ رکھا کی بات غور سے سنی اور کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ معاملہ سنگین تھا۔ ایک بچی کو اغوا کیا گیا تھا، اور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی گہرا راز تھا۔
“یہ نیلی پوٹلی کیا ہے؟” میں نے سوال کیا۔
اللہ رکھا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد آہستہ سے بولا، “جناب، یہ پوٹلی میرے والد کے زمانے سے ہمارے پاس ہے۔ وہ ریلوے میں ملازم تھے اور اکثر سفر کرتے تھے۔ ایک دن وہ ایک اجنبی مسافر سے یہ پوٹلی لے کر آئے اور اسے ہمیشہ سنبھال کر رکھنے کی تلقین کی۔ لیکن ہمیں کبھی پتا نہ چل سکا کہ اس میں ہے کیا۔”
“اور تم نے کبھی کھول کر نہیں دیکھا؟” میں نے حیرانی سے پوچھا۔
اللہ رکھا نے سر جھکا لیا۔ “جی نہیں، والد صاحب نے سختی سے منع کیا تھا۔”
یہ معاملہ اور بھی پراسرار ہو چکا تھا۔ ایک ایسی چیز جسے کسی نے کھولا نہیں، پھر بھی کسی کو اس کی اتنی تلاش کہ ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر لیا جائے؟
“کیا تمہیں کوئی شک ہے کہ ڈاکو کون ہو سکتے ہیں؟” میں نے پوچھا۔
فیض محمد نے آہستہ سے کہا، “جناب، کچھ دن پہلے کچھ اجنبی لوگ ہمارے گاؤں میں آئے تھے۔ وہ بار بار ریلوے پھاٹک کے قریب گھومتے نظر آتے تھے۔ ان میں ایک شخص خاص طور پر کافی باتونی تھا۔ وہ بار بار اللہ رکھا سے پرانے زمانے کی چیزوں کے بارے میں سوال کر رہا تھا۔”
مجھے لگا کہ یہ اجنبی یقینی طور پر اس نیلی پوٹلی کی تلاش میں تھے۔
“ہمیں فوراً کارروائی کرنی ہوگی۔” میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ “ہم ڈاکوؤں کا سراغ لگائیں گے اور صندل کو ہر حال میں واپس لائیں گے۔”
میں نے اپنے چند ماہر سپاہیوں کو بلا کر انہیں فوری کارروائی کا حکم دیا۔ سب سے پہلے ہمیں اس اجنبی شخص کا سراغ لگانا تھا جو کچھ دن پہلے گاؤں میں آیا تھا۔ میں نے اپنے آدمیوں کو فرید کوٹ اور آس پاس کے علاقوں میں اس کی کھوج لگانے کا حکم دیا۔
رات ہونے سے پہلے ہی ایک سپاہی نے اطلاع دی کہ ایک شخص جس کا حلیہ فیض محمد کی دی گئی معلومات سے ملتا تھا، قریبی قصبے کی ایک سرائے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہم فوراً وہاں پہنچے اور ہوٹل کے مالک سے پوچھ گچھ کی۔ اس نے بتایا کہ وہ شخص کچھ اور آدمیوں کے ساتھ یہاں ٹھہرا تھا، لیکن وہ آج دوپہر ہی ایک ویران علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔
میں نے فوراً اپنے سپاہیوں کو تیار کیا اور ہم رات کے اندھیرے میں ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔ ویرانے میں کچھ دیر تلاش کے بعد ہمیں ایک پرانی حویلی نظر آئی جہاں روشنی کی ہلکی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ ہم نے چپکے سے اندر جھانکا تو ایک کمرے میں صندل بندھی بیٹھی تھی، جبکہ تین آدمی آپس میں بات کر رہے تھے۔
“ہمیں فوراً کارروائی کرنی ہوگی۔” میں نے سرگوشی کی اور اپنے سپاہیوں کو چاروں طرف سے گھرنے کا اشارہ دیا۔ جیسے ہی ڈاکوؤں کو ہمارے آنے کی خبر ہوئی، وہ بوکھلا گئے۔ ایک نے بندوق اٹھانے کی کوشش کی لیکن ہم نے فوراً اسے قابو کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کو گرفتار کر لیا گیا اور صندل کو بحفاظت واپس لے آیا گیا۔
اللہ رکھا اور اس کی بیوی کی خوشی دیدنی تھی۔ صندل کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ “شکریہ تھانے دار صاحب!” اللہ رکھا نے روتے ہوئے کہا۔
لیکن ایک سوال اب بھی باقی تھا۔ “یہ نیلی پوٹلی کہاں ہے؟” میں نے پوچھا۔
اللہ رکھا ہمیں اپنے کوارٹر لے گیا اور ایک پرانے بکسے میں سے ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی نیلی پوٹلی نکالی۔ ہم سبھی دم سادھے کھڑے تھے۔ آخر کار، میں نے آہستہ سے پوٹلی کھولی۔
اندر ایک زرد رنگ کی پرانی کتاب تھی، جس کے صفحات پر ہاتھ سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے غور سے پڑھنے کی کوشش کی، اور حیرت سے میرے چہرے پر ایک سنسنی پھیل گئی۔
یہ ایک پرانی خفیہ دستاویز تھی، جس میں انگریز دور کے کچھ انتہائی قیمتی ریلوے راستوں، خزانوں اور خفیہ سرنگوں کے نقشے درج تھے! یہی وجہ تھی کہ یہ ڈاکو اس نیلی پوٹلی کی تلاش میں تھے۔
ہم نے وہ کتاب سرکاری ریکارڈ میں جمع کروا دی اور اس کیس کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ اللہ رکھا اور اس کے خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا، اور صندل اپنے والدین کے ساتھ خوشی خوشی واپس اپنی زندگی میں لوٹ آئی۔
یوں ایک پراسرار نیلی پوٹلی کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی، لیکن اس کے پیچھے چھپے راز ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔