محنت میں عظمت کی کہانی

0
اچھی باتیں

عاصم اور حیدر بہت اچھے دوست تھے۔دونوں پڑھائی میں بہت تیز تھے۔کبھی عاصم کی فرسٹ پوزیشن آجاتی تو کبھی حیدر کی ۔دونوں نے کبھی ایک دوسرے سے حسد محسوس نہیں کیا تھا۔عاصم کا سکول اس کے گھر کے قریب تھا۔ لہٰذاوہ پیدل ہی آتا جاتا تھا۔عاصم کے گھر کے راستے میں ایک آدمی اپنے طوطے کے ہمراہ فال لے کر بیٹھا ہوتا تھا۔ایک دن عاصم نے سوچا کیوں نہ میں بھی اپنی ایک فالنکلواؤں لہٰذا عاصم اس طوطے والے آدمی کے پاس گیا۔اس سے کہا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس بار سالانہ امتحان میں میری پوزیشن کونسی آئے گی ۔ اس نے کہا صاحب یہ طوطا آپ کو فال کے ذریعے بتا سکتا ہے ۔اور یہ طوطا کبھی غلط فال نہیں نکالتا،اس فال کے ذریعے جو بھی نکلے گا بالکل ویسا ہی ہو گا۔

عاصم اس کی باتوں میں آگیا لہٰذا جب فال نکالی گئی تو عاصم سن کر حیران ہی رہ گیا کیونکہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ اس بارتم فیل ہو گے۔یہ سن کر عاصم بہت پریشان ہوا۔اس پریشانی کے عالم میں جب وہ گھر پہنچا تو عاصم کی امی اسے دیکھ کر حیران ہوئیں کیونکہ اس سے پہلے جب وہ گھر آتا تھا تووہ بہت ہنستا مسکراتا گھر میں داخل ہوتا تھا اور اپنی امی سے بہت گرم جوشی سے ملتا تھا جبکہ آج معاملہ اس کے برعکس تھا وہ بہت خاموش اور سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔

عاصم کی امی نے بار بار پوچھا لیکن وہ ہر بار ٹال گیا۔اب یہ تھا کہ عاصم جب بھی کتابیں کھول کر بیٹھتا تو یکسوئی سے کچھ بھی یادنہ کرپاتا۔اس کا دل پڑھائی سے یکدم ہی اٹھ چکاتھا۔اس نے سوچا جب میری قسمت میں اس بارفیل ہونا ہی لکھاہے تو اتنی محنت کا کیا فائدہ اس طرح سے عاصم نے پڑھائی میں دلچسپی لینا بالکل ہی چھوڑ دی۔عاصم کے ٹیچرز اس کے پڑھائی کے متعلق کارکردگی پر بہت حیران ہوتے جارہے تھے۔ کیونکہ وہ دن بدنپڑھائی میں بہت کمزور ہوتا جارہا تھا۔اس کا دوست حیدر بھی بہت پریشان تھا کہ آخر اس کو ہوا کیا ہے ایسا کیا مسئلہ ہے جو یہ پڑھائی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے آخر ایک دن حیدر نے عاصم سے اس قدر اصرار کیا کہ عاصم کو بتانا ہی پڑھا۔ سواس نے ساری بات حیدرکو گوش گزار کردی۔حیدر عاصم کا بہت اچھا دوست تھا۔سواس نے عاصم کو بہت مخلصانہ مشورہ دیا کہ تم اس آدمی کی بات کا ہر گزیقین مت کرو۔بھلا ایک طوطا انسان کی قسمت کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے ۔تم دل لگا کر محنت کرو۔اللہ تعالیٰ محنت کرنے والے کو بہت پسند کرتا ہے اور محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پھل بھی ضرور عطا کرتا ہے ۔لہٰذا تم دن رات اپنی توجہ پڑھائی پر لگادو۔دیکھنا پھر تمہاری پہلے ہی کی طرح پوزیشن بھی آئے گی ۔عاصم پر حیدر کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے پھر پہلے کی طرح دن رات محنت کی اور جب سالانہ امتحانات کا نتیجہ تو عاصم کی فرسٹ پوزیشن آئی یہ دیکھ کر عاصم بہت خوش ہوا کہ اس کی تو فرسٹ پوزیشن آگئی ہے۔تب اس کو احساس ہوا کہ واقع ہی محنت ہی کی بدولت انسان اپنی قسمت بدل سکتا ہے ۔یہ قسمت کا فیصلہ سوائے اللہ کہ اورکوئی

نہیں کر سکتا لیکن اس کے لئے محنت شرط ہے۔

علی عباسنام
ششمکلاس
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہسکول

چڑیا کی تین نصیحتیں

ایک شخص نے چڑیاپکڑنے کے لئے جال بچھایا۔ اتفاق سے ایک چڑیااس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑلیا۔ چڑیا نے اس سے کہا۔ آئے انسان! تم نے کئی ہرن‘ بکرے اورمرغ وغیرہ کھاتے ہیں ، ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیاحقیقت ۔ ذراسا گوشت میرے جسم میں ہے اس تمہارا کیابنے گا؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا۔ لیکن اگرتم مجھے آزادکودوتو میں تمہیں تین نصیحتیں کروں گی جن پرعمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا۔ ان میں سے ایک نصیحت تومیں ابھی کروں گی۔

جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑدو گے اور میں دیوار پرجابیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوارسے اڑکرسامنے درخت کی شاخ پرجا بیٹھوں گی۔ اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ھوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے؟

اس نے چڑیاکی بات مانتے ہوئے اس سے پوچھا۔ تم مجھے پہلی نصیحت کرو‘ پھر میں تمہیں چھوڑدوں گا۔ چنانچہ چڑیانے کہا۔ میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ جوبات کبھی نہیں ہوسکتی اس کا یقین مت کرنا۔ یہ سن کراس آدمی نے چڑیا کوچھوڑدیا اور وہ سامنے دیوار پرجابیٹھی پھربولی۔ میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جو ہوجائے اس کاغم نہ کرنا اور پھر کہنے لگی۔ اے بھلے مانس تم نے مجھے چھوڑ کربہت بڑی غلطی کی۔ کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھرکا انتہائی نایاب پتھرہے۔ اگرتم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تواس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تم بہت بڑے رئیس بن جاتے ۔

اس شخص نے جویہ بات سنی تولگا افسوس کرنے۔ اور پچھتایاکہ اس نے چڑیاکوچھوڑ کراپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی۔ اگر اسے نہ چھوڑتا تومیری زندگی سنورجاتی۔ چڑیا نے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھاتواڑکردرخت کی شاخ پرجا بیٹھی اور بولی۔ اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے توبھول گئے کہ جوبات نہ ہوسکنے والی ہواس کا ہرگزیقین نہ کرنا۔ لیکن تم نے میری اس بات کااعتبار کرلیا کہ میں چھٹانک بھروزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤوزن کاموتی رکھتی ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جوبات ہوجائے اس کاغم نہ کرنا۔ مگرتم نے دوسری نصیحت کابھی کوئی اثر نہ لیااور غم وافسوس میں مبتلا ہوگئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا۔

تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بلکل بے کارہے۔ تم نے میری پہلی دونصیحتوں پرکب عمل کیا؟  جوتیسری پرکرو گے۔ تم نصیحت کے قابل نہیں۔ یہ کہتے ہوئے چڑیاپھرسے اڑی اور ہوامیں پرواز کرگئی۔ وہ شخص وہیں کھڑا چڑیا کی باتوں پرغور وفکر کرتے ہوئے سوچوں میں کھوگیا۔  وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والاہو۔ ہم اکثر اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پرکان نہیں دھرتے اور اس میں نقصان ہماراہی ہوتا ہے۔ یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں ہوتی بلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں۔ جو ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں اگرہم ان پرعمل کریں۔

علی حسیننام
ہشتمکلاس
گورنمنٹ ہائی سکول ایم سی نمبر 2 لیہسکول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *