بچوں کے مضامین
تحریر: احتشام الحق کلاس: دہم سیکشن: ڈی
انچارج کلاس: حسن رضا
گورنمنٹ بوائز ہائی سکول فتح پور
یوم آزادیـــــــــــــ مطلب اور اہمیت
کامل 73 سال بیت گئے۔ مادرِوطن کومعرضِ وجودمیں آئے۔ اس ماہ ہم آ زادی ک تیہترویں سالگرہ مناچکےہی ،سبھی کومبارک ہو، تجدیدعہدِوفاکرتےہوئے اپنی
کوتاہئیوں پر نادم مگر روشن مستقبل کی امید کے ساتھ ہم خوشیاں منا رہے ہیں اور ہمت، حوصلے اور دانش مندی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ لیے ہوئے، ایک صبحِ روشن کا خواب آنکھوں میں سجائے۔ اس کی تعمیرو ترقی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا عزم کر رہے ہیں۔
مگر کیا یہ ہم پچھلے بہتر سال سے مسلسل نہیں کرتے آرہے۔۔۔؟ تجدید عہدِ وفا۔۔۔۔ امیدِ صبحِ نو۔۔۔ آگے بڑھنے کا عزم۔۔۔ ہر ماہِ آزادی میں نئی امنگوں کے ساتھ یہ روایتی طور اطوار سے کئے گئے وعدے جو پون صدی گزرجانے کے با وجود پورے نہیں ہوئے۔۔۔۔ آج کی کوشش۔۔۔ کل کی تعمیر کی فکر ۔۔۔ جوش، جذبہ اور امید۔۔۔ سبھی کچھ ہونے کے با وجود بات جہاں تھی، وہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ شاید پہلے سے بھی کہیں پیچھے چلی گئی ہے۔۔۔۔ایسے میں آزادی کو اپنے تمام تر معانی کے ساتھ سمجھنا اور اِس کو خود آزمانا ہی ایسا قدم ہو سکتا ہے جو ہمیں دائرے کے اس سفر سے نکال باہر کر سکتا ہے۔۔۔
آزادی کیا ہے؟آزادانہ طور پر سانس لینا اور چلنا پھرنا کہ زندگی کی بنیادی علامت ہے۔۔۔۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ زندگی کو من چاہے طریقے سے گذارنا۔۔۔ پر تعیش زادِحیات کے حصول کی لا محدود خواہشوں کی تکمیل کا خواب پورا ہوئے جانا۔۔۔ اور اندھی خواہشوں کے پورا ہونے کی لالچ میں زندگی گذار دینا۔۔۔
کیا یہی آزادی ہے؟ وہ آزادی جو نسلوں کی قربانی دینے سے حاصل ہوئی۔۔۔ جس نے ہمارے اجداد کی روایات کا امین ہونا تھا۔۔۔۔ نہیں یقیناََ نہیں۔۔۔ انہوں اس دن کےلیے اپنے آج کو ہمارے آج کیلئے قربان نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم صحیح معنوں میں آزاد ہوں۔۔۔ اور آزادی دراصل ہے کیا ۔۔۔؟ لغت کے مطابق بغیر کسی رکاوٹ کے سوچنے، بولنے یا عمل کرنے کا حق یا طاقت رکھنا آزادی کہلاتا ہے۔ سو آزادی درحقیقت آزاد فکر، ذہنی پختگی اور فکر و نظر کی بلندی کا نام ہے۔۔۔ یہی دولت ہمیں میسر نہیں اپنی ہی کوتاہئیوں کے سبب۔۔۔ مگر ہم سوچ و فکر کو غلام رکھنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔۔۔
سو تبھی ایسا ہے ہے کہ ہم ہر سال ماہِ آزادی کو واپس اُسی جگہ آن کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے سفر شروع کرتے ہیں۔۔۔۔ کیوں کہ ہم وہی سوچتے ہیں جو ہمیں بتایا جاتا ہے۔۔۔ ہم اُسی پر یقین رکھتے ہیں، جو ہمیں دکھایا جاتا ہے۔۔۔ ہمیں تحقیق کا شوق ہے اور نہ ہی اس سے تعلق۔۔۔ پھر کہاں فکر کو وسعت اور خیال کو عمدگی عطا ہو۔۔۔ پھر کہاں ہم بہتری کی جانب گامزن رہ سکتے ہیں۔۔۔؟ منزل کی جانب بڑھنے کیلئے منزل کو طے کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ وہی نہیں تو سفر کہاں کا۔۔۔؟
سو آیئے اب کہ ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دراصل غلامی سے چھٹکارے کی سبیل کریں گے۔۔۔ ہم خیال کی وسعتوں کو کسی کم تر ذہن کی تحریک پر قید نہیں کریں گے۔۔۔ ہم اپنی سوچ اور فکر پر کوئی قید نہیں قبول کریں گے۔۔۔ ایک ایسے پاکستان کی بنیاد ڈالیں گے جس کے باسیوں میں شعورو آ گہی ہو۔۔۔۔ تاکہ مادرِ وطن کی ترقی اور بقا کےلیے آزادانہ طور پر کردار ادا کر سکیں!!!
آنحضرت محمدﷺ کا عورتوں اور بچوں سے سلوک
آپؐ کی مثال آفتاب درخشاں کی ہے۔ جو غار حرا سے طلوع ہو ئے اور پوری دنیا کو روشن کر دیا۔ آپؐ دنیا میں رحمت للعلمین بن کر آئے۔آپؐ نے عورتوں کو بلند مقام عطا کیا آپؐ نے عورت کو ماں بہن بیٹی کی حثیت سے عزت بخشی۔ اپنی ازواج مطہرات سے محبت اور مہر بانی کا سلو ک کیا۔ آپؐ حضرت فاطمہ کی آمد پر اس قدر خوش ہوتے کہ کپڑا بچھاتے ۔ آپؐ نے عورتوں کو جہالت کے اند ھیروں سے نکال کر ان کے حقو ق مقرر فر ما ئے۔اسی طر ح آپؐ بچوں پر بھی بے انتہا شفقت فر ماتے۔ حضرت حسن ؑاور حضرت حسینؑ کے ساتھ بے انتہا محبت کر کے بچو ں کے ساتھ محبت کی مثال قائم کی۔ یہاں تک کہ جب وہ کھیلتے ہوئے نماز کے دوران آپؐ کے کند ھوں پر سوار ہوگئے تو آپؐ نے اپنا سجدہ لمبا کر لیا۔
آپؐ نے فرما یا کہ بچوں کو پیار کے ساتھ آداب سکھائے جائیں۔ ایک شخص آپؐ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے بچے ہیں مگر میں نے کبھی ان کے سا تھ پیار نہیں کیا تو آپؐ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ اس لیے ہمیں چا ہیئے کہ ان کی تعلیما ت پر عمل کریں۔
عائشہ رؤف
کلاس دھم
گورنمنٹ گرلز ھائی سکول چکنمبر 250/ٹی ڈی اے
ایمس کو ڈ: 32220071
پاکستان کے ہرسکول میں ہی سائنس پڑھائی جاتی ہے لیکن پھربھی بہت کم طالبہ سائنی مضامین شوق سے پڑھتے ہیں اور اس سے کم سائنسدان بننے کی خواہش رکھتے ہیں زیادہ تر طالب علموں کو یہ مضمون اس قدر خشک اور دلچسپی سےعاری معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے متنفر ہو جاتے ہیں اگرپاکستان کا موازنہ بھارت سےکریں تو پتہ چلتا ہے کہ سکولوں کے طلبہ سائنس کو باعزت ترین اور شاندار پیشہ سمجھتے ہیں ان کے لیے آئن سٹائن اسٹیون ہاکنگ، بلیک ہول اور جینزوغیرہ مسحور کن الفاظ ہیں اگرچہ اکثرطلبہ معمول کے پیشوں کی طرف چلے جاتے ہیں مگرپھربھی خاصی تعداد سائنس سے وابستہ رہتی ہے ان میں بہت سے دنیا کے بہترین سائنسدانوں میں شامل ہیں اور یہ بھارت کےعالمی طاقت بن کرابھرنے کا ایک اہم سبب ہے یہ فرق کیوں ہے اس کا جواب بڑی حد تک پاکستان میں تحریرکردہ سائنس کی کتابوں میں جائزہ لینے سے ملتا ہے اگرچہ ناقص امتحانی نظام اور سائنس کے خراب اساتذہ کو مورد احترام ٹھہرانا چاہئے تاہم ناقص نصابی کتب ایسے کلچر ہیں خاص طور پرمضرہوتی ہیں جہاں تحریر کو پتھرپرلکیرسمجھا جاتا ہے مقامی سطح پرتیارشدہ کتابیں طلباء کی تجسس کیحس کوپروان چڑھانے کی بجائے اسے ختم کرتی ہیں ریاضی چند بےمعنی اور بے مقصد مشقوں تک محدود ہے فزکس کیمسٹری اور بیالوجی میں صرف فارمولے اور شکلیں رٹائی جاتی ہیں یہ کتابیں شروع سے لےکر آخر تک ناقص علم و تدریس کا نمونہ ہیں صورتحال کو بدلنے کے لیے مضبوط عزم درکار ہے پاکستانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مقامی طور پرتحریرکردہ نصابی کتابیں غیرملکی کتابوں کے مقابلے میں غیرمعیاری ہیں ہمیں کھلے دل سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ بترین کتابیں جہاں سے بھی دستیاب ہوں استعمال کی جائیں جو جھوٹی انا اور غلط مسلط خیالات کوترک کرنا ہوگا ہم غیرملکیوں کے جہازوں میں سفر کرتے ہیں وہاں کی ایجاد کردہ چیزیں اور دوائیں استعمال کرتے ہیں موبائل فون اور گاڑیاں استعمال کرتے ہیں اپنی کمتری کا اعتراف کرنا بھی آسان نہیں ہوتا لیکن بلاشبہ مستقبل میں سیاسی طور پرتیزذہن کے حاصل پاکستانی پیدا کرنے کے لئے یہ قیمت بہت کم ہے.
تحریر : ایمان حفیظ
کلاس نہم (اے)
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ٹی ڈی اے کالونی لیہ
بڑوں کا ادب عنو ان :
ا قصی بی بی | نا م طالبہ |
ہشتم | جما عت |
سکول کانام:گورنمنٹ گرلز ھا ئ سکول124/ٹی ڈی ا ےلیہ |
کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے ۔ قاسم ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے ذہین ترین طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔قاسم کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا،لیکن وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا۔اساتذہ کرام کی نقل اُتارنا،چوری چھپے ان پر جملے کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔
کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ قاسم وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔
کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر نقاہت اور کمزوری طاری تھی۔اس کی ٹانگوں پر کافی زخم آئے تھے۔
نتیجتاً اس کی دائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔
کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی۔
آخر اسے ایک سکول میں معمولی سکول ٹیچر کی نوکری مل گئی۔جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اُتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا․․․․اور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا یا اس کا بیمار،لاچار اور معذور بدن یا پھر اس کا پچھتاوا۔
نا م طالبہ۔ ایمن رمضان
جماعت۔ششم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ۔
EMIS CODE: 32230137
بھڑ کے بارے میں اہم معلومات
بھڑ کو ایک خطرناک کیڑا سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ماحول کی بہتری کے لیے بہت کام کرتا ہے۔ یہ مچھر اور کئ انسان دشمن کیڑےکھا کر ہماری مدد کرتا ہے۔ اس کی بے شمار اقسام اور ہر قسم کی الگ خوبیاں ہیں۔ بھڑ سرد علاقوں کے علاوہ دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ اس کی اب تک 7500 کے قریب اقسام دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس کے جسم کے تین بنیادی حصے ہوتے ہیں۔ یہ ایک منٹ میں 1100 مرتبہ اپنے پر اوپر نیچے کرتی ہے۔ اور 30 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتی ہے۔ خوراک کی تلاش میں بھڑ 400 کلومیٹر دور تک چلی جاتی ہے۔ دنیا میں موجود انجیر کے 800 سے زائد اقسام کے درختوں کے بیج ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے۔ فیزفلائی دنیا کی سب سے چھوٹی 1ملی لیٹر لمبی بھڑ ہے۔ یہ اکیلی رہتی ہے۔
دعا اور ترقی۔۔۔اولاد کی ترقی کا راز ماں باپ کی دعاؤں میں مضمر ہے جس شخص کے ماں باپ خوش ہوں اور اس کے لئے دعا گو ہوں اس کی ترقی کی ہر منزل آسان ہو جاتی ہے ماں باپ ناراض ہو تو پھر وہ اولاد کو بددعائیں دیتے مگر اولاد کو کوشش کرنی چاہیے کہ ماں باپ اس سے ناراض نہ ہوں اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت کریں اور اور ان کی دعائیں لے کر دنیا میں بھی ترقی کریں اور آخرت میں بھی جنت حاصل کریں۔۔۔۔۔۔محمد مرید عباس گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بستی سبانی
شمسہ سحر کلاس ہفتم
گورنمنٹ گرلز ہائ سکول164-A لیہ 32230113
عنوان : صفائی کا خیال رکھیں
ایک دن میں گھر سے باہر نکلی میں یہ دیکھ کر بہت دکھی ہوئی کے کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگی ہوئی تھی اور عورتیں اس ڈھیر پر مزید کوڑا پھینک رہی تھیں جس سے دھواں فضا میں پھیل رہا تھا اور وہاں موجود ہر شخص کا سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ہر کسی نے اپنا منہ ڈھانپ رکھا تھا -میں جلدی سے گھر واپس آ گئی اور اس کے بارے میں سوچنے لگی کہ اس گندگی کی وجہ سے زمین آلودہ ہوتی ہے- اگر ایسا ہوتا رہا تو ہم کیسے زندگی گزاریں گے میں یہ سوچتے ہوئے سو گئی -میں نے خواب میں زمین کو دیکھا جو بہت اداس تھی گندگی کی وجہ سے اس کی خوبصورتی خراب ہو گئی تھی -میں زمین سے ملنا چاہتی تھی اگلے دن میری ملاقات زمین سے ہوئی- زمین کی آنکھوں میں آنسو تھے اس پر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تھے آلودہ پانی کے نشانات اور گندگی نے اس کی حالت خراب کر دی تھی -میں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت دکھی ہوئی میں نے زمین سے پوچھا کہ ہم تمہاری خوبصورتی برقرار رکھنے کے لیے کیا کریں ؟ زمین نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں کوڑاکرکٹ جگہ جگہ پھینکنے سے گریز کریں گے کو آگ نہ لگائیں کیونکہ اس سے دھواں فضا میں پھیلتا ہے اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے- زمین کی بات سن کر میں سمجھ گئی اور میں نے جگہ جگہ خوبصورت اور سایہ دار پودے لگا دیے اب میں ہر روز ہی پانی دیتی اور ان کا خیال رکھتی یوں زمین پر سبزہ ہی سبزہ نظر آ نے لگا-
نا م طالبہ۔ شانزہ شفیع
جماعت۔ششم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ۔
EMIS CODE: 32230137
سرسبز مستقبل
اگلے ہفتے سکول میں ہفتہ شجرکاری منایا جارہا تھا۔اور سب بچوں کو ایک ایک پودا لگانے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ کچھ بچیاں تو کافی گرم جوش تھیں۔ اسی طرح کچھ بچوں کا کہنا تھا کہ بس سکول والوں کو ان کا خرچہ کروانے کا شوق ہے۔کلاس میں ہونے والی یہ بحث مس سارا نے سن لی اور ان کا پورا دن اس سوچ بچار میں گزر گیا کہ ان بچوں کو سمجھانا ہے۔ دوسرے دن وہ اپنی کلاس کو ابتدائی پندرہ منٹ پڑھانے کے بعد کتاب بند کرکے بچوں سے مخاطب ہوئیں کہ اگلے ہفتے شجرکاری مہم ہے میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ درختوں کا کیا فائدہ ہے؟
آخر ہم یہ ہفتہ کیوں منا رہے ہیں؟مس درختوں سے ہمیں سایہ ملتا ہے۔ درخت آکسیجن دیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ سب نےرٹا ہوا جواب دیا۔ مس سارہ کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ ہم درختوں کی لکڑی سے کیا کیا چیزیں بنی ہوئی استعمال میں لاتے ہیں۔ مس یہ دروازہ لکڑی کا بنا ہوا ہے یہ فرنیچر لکڑی سے بنتا ہے مس سارا نے طالبات کو سمجھایا کہ یہ پین، کاپیاں، کتابیں اور پنسل یہ سب ہی لکڑی سے بنتی ہیں۔ اور ٹشوپیپر بھی درخت سے بنتا ہے۔ آدھی آکسیجن درختوں سے اور آدھی سمندروں کے پانی سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہم درخت کاٹتے رہے اور مزید شجرکاری نہ کی تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ مس سارا کی بات سے بچے افسردہ نظر آنے لگے تو مس سارا نے سمجھایا کہ جو پودے ہم آج لگائیں گے تو وہ کچھ سالوں میں درخت بن جائیں گے۔ اس پر بچےجھولا جھولیں گے۔ ہمارے بزرگ ان کی چھاؤں میں بیٹھیں گے۔ یہی چیز آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے گی۔بچوں کی آنکھوں کی چمک اور مس سارہ کے چہرے کا سکون آنے والے سرسبز مستقبل کی داستان سنا رہا تھا۔
سعدیہ نثار کلاس ششم
گورنمنٹ گرلز ہائ سکول164-A لیہ 32230113
عنوان : قسمت
ایک بادشاہ سلامت کی سات بیٹیاں تھیں – ایک دن بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے پوچھا کہ آپ کس کے نصیب کا کھاتی ہیں ؟ ایک بیٹی نے جواب دیا کہ میں اپنے نصیب کا کھاتی ہوں اور چھ بیٹیوں نے کہا کہ ہم آپ کادیا کھاتے ہیں – باپ نے کہا بیٹی اگر تم اپنی قسمت کا کھاتی ہو تو میرے گھر سے چلی جاؤ -وہ گھر سے کہیں دور چلی گئی اور چلتے چلتے شام ہو گئی راستے میں ایک جنگل آ گیا -رات کو وہ جنگل میں سو گئی خواب میں کیا دیکھتی ہے کہ اس درخت کے نیچے سونے کے زیورات اور ہیرے ہیں – وہ صبح اٹھتے ہی اس درخت کو کٹوا دیتی ہے تو واقعی وہاں پہ ہیرے اور زیورات تھے -اس نے وہ زیورات بیچ کرایک عالیشان محل بنوایا اور سب بادشاہوں کی دعوت کی اور ساتھ ہی اپنے گھر والوں کی بھی دعوت کی اور سات قسم کے کھانے بناے – جب سب لوگ جمع ہوگئے اور کھانا تقسیم ہوا اور سب لوگوں نے کھانا وغیرہ کھا لیا تو اس نے اعلان کروایا کہ سب لوگ ہیں چلے جائیں لیکن اپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ یہ لوگ یہیں رہیں – اس نے اپنے گھر والوں کو بلایا اور کہا بابا جان اب بتاؤ کہ میں کس کی قسمت کا کھاتی ہوں ؟ میں وہی لڑکی ہوں جس کو آپ نے اپنے گھر سے نکالا تھا -با پ شرمندہ ہوگیا اور بولا واقعی بیٹی ! ہر بیٹی اپنا نصیب لے کے آتی ہے – باپ نے بیٹی سے معافی مانگی اور دونوں باپ اور بیٹی مل جل کر رہنے لگے-
کامیابی کا راز
اسد نے اس مرتبہ خوب محنت کی،لیکن پھر بھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ عدنان سے آگے بڑھ سکے گا اور جب نتیجہ آیا تو وہی ہوا۔عدنان اول آیا جب کہ اسد دوسرے نمبر پر آیا۔ہر سال اسد سالانہ امتحان کے لئے پُرزور محنت کرتا،لیکن پھر بھی عدنان سے پیچھے رہ جاتا۔
جب اس مرتبہ بھی وہی ہوا تو اسد اپنے کمرے میں بیٹھ کر رونے لگا۔اسد کے والد کمرے میں داخل ہوئے تو اسد کو یوں روتا دیکھ کر حیران ہو گئے۔
انھوں نے اسد سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا:”ابا جان!میں ہر سال خوب محنت کرتا ہوں،لیکن نہ جانے کیوں اول آنے سے رہ جاتا ہوں۔
اسد کی یہ بات سن کر اس کے والد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔انھوں نے اسد کو پیار سے سمجھایا:”بیٹا!یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ تم کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے رہ جاتے ہو۔
تمہارے اندر ایک خوف بیٹھ چکا ہے کہ تم عدنان سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
جب تم یہ بات سوچتے ہو تو تم جتنی بھی محنت کرتے ہو خود پر کم اعتمادی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے۔عدنان سے آگے بڑھنے کا خیال دل سے نکال دو اور کچھ سوچے بغیر اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔“
اسد نے خوب دل لگا کر محنت کی اور اب سالانہ امتحان دینے کے بعد آج اس کا نتیجہ تھا۔
سکول میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔اسد کو یقین تھا کہ وہ اس مرتبہ ضرور اول آئے گا،کیونکہ اس نے سخت محنت کی ہے۔جب نتیجہ سنایا گیا تو سب سے پہلے تیسرے نمبر پر،پھر دوسرے نمبر پر آنے والے طالب علم کا نام پکارا گیا۔جب کہ اسد کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
پھر پہلے آنے والے طالب علم کا پکارا گیا جسے سن کر اسد خوشی سے پھولے نہ سمایا۔وہ سب کی پُرزور تالیوں میں اسٹیج کی طرف بڑھا۔پرنسپل صاحب نے اسے مبارک باد دی اور اسے انعام دیا۔آج وہ اول جب کہ عدنان دوسرے نمبر پر آیا۔اب وہ جان چکا تھا کہ ہمیں یہ سوچ کر محنت کرنی چاہیے کہ ہم ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔یہ کامیابی کا ایک راستہ ہے۔
________________________________________________________________________________
محمد عرفان کلاس اول
گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ٹاوّن لیہ
گھر میں میا ں بیوی کی لڑائی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گھر میں میا ں بیوی کی ہر بات پر ایک دوسرے سے لڑائی ہوتی رہتی تھی ۔میاں بیوی سے کہتا تھا کہ تم گھر کے کام تھیک سے نہیں کرتی اور بیوی میاں سے کہتی تھی کہ تم مجھے خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں دیتے اور دفتر کا کام بھی ٹھیک سے نہیں کرتے روز روز یہی بحث ہوتی رہتی تھی ۔ایک دن دونوں نے تنگ ہو کر ایک فیصلہ کیا کہ بیوی دفتر کا کام کرے گی اور شوہر گھر کا کام کرے گا دونوں میں طے ہو گیا۔صبح بیوی جب دفتر گئی تو وہاں بہت ہی اہم میٹنگ تھی وہا ں کے آفیسر انگلش بول رہے تھے۔ اس کی بیوی کو ان کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی جس وجہ سے ان کے کام کا بہت نقصان ہوا ۔گھر میں جب شوہر کھانا بنا رہا تھا تو اس نے سالن جلا دیا ۔سارے گھر میں سالن کے جلنے کی بو آرہی تھی۔شوہر نے گھر کا کوئی کام بھی ٹھیک سے نہیں کیا اس طرح نہ دفتر اور گھر کا کام ٹھیک ہوا۔دفتر کے کام کا نقصان بیوی نے کیا ۔گھر کے کام کا نقصان شوہر نے کیا
نتیجہ :جس کا کام اسی کو سجھے
حمیرا امین جماعت نہم
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چک نمبر 149 بی ٹی ڈی اے ،لطیف ماڈل فارم (لیہ)
مکہ مکرمہ
مکہ مکرمہ مقدس شہرہےمکہ اسلامی دنیا کی ثقافت کا مرکزہےمکہ ایک عظیم شہرہےمکہ میں اللہ کا گھرہے مکہ ایک تاریخی شہر ہے مکہ مکرمہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے مکہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے ام القری، بکہ اور البلد الامین ہیں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اسلامی دعوت کا آغازمکہ مکرمہ سے ہوا مسلمان ہر سال حج ادا کرنے کے لیےمکہ جاتے ہیں مکہ میں بہت سی مقدس جگی پائی جاتی ہیں جیسے صفا مروہ، عرفات ، منردلفہ اور منی مکہ مملکت سعودی عرب میں واقع ہےمکہ مدینہ منورہ سے چار سو کلومیٹر اور شہر طائف سے 120 کلومیٹر اور جدہ سے تقریبا 72 کلومیٹرہےمکہ مکرمہ سے قریب ترین بندر گاہ جدہ کی اور قریب ترین ایئرپورٹ شاہ عبدالعزیزانٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے مکہ میں کشادہ راستے اور بڑی بڑی سرنگیں ہیں مکہ میں جدید سہولیات جیسے ٹرانسپورٹ بجلی پانی اور ٹیلی فون پائے جاتے ہیں مکہ کا شمار سعودی عرب کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے مکہ کی بڑی شان ہےاللہ نے اس مبارک شہرکی قسم کھائی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس شہرکوبہت پسند کرتے تھے.
تحریر : عبیرہ چوہدری
کلاس ششم (اے)
گورنمنٹ گرلزہائی سکول ٹی ڈی اے کالونی لیہ
یا دیں ہم سفر میر ی- میرے پیا رے نانا جان
میرا نام فضہ ہے-میری عمر پندرہ سا ل ہے۔آج میں اپنے مرحوم نانا جان کے حوالے سے لکھنا چاہتی ہوں-میرے نانا جان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دو ہفتے گزرے ہیں- مگر ابھی تک ان کے با رے میں بات کرتی ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں -وہ ایک عظیم انسان تھے اور ساری زندگی محنت و مشقت میں گزاری- اُنکے پانچ بیٹے تھے اور وہ سب اچھا کما لیتے تھے مگر میرے نانا جان نے محنت کرنا نا چھوڑی-ہمارا بچپن اُن کےسا تھ گزرا ہے-وہ ہمارے دوسرے باپ تھے-ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتے اور کبھی کسی کے بارے میں دل میں بغض نہ رکھتے-وہ کبھی بھی کسی پریشانی ،آزما ئش اور تکلیف سے نہ گبھراتے تھے اور تمام مشکلات کا سامنا ڈٹ کر کرتے تھے-مگر ایک جان لیوا بیماری نے اُنہیں بےبس اور مجبور کر دیا اور وہ آٹھ مہینے بستر علالت پر پڑے رہے -لیکن زبان سے کلمات شکوہ کبھی نہ کہے-ایک دن اچا نک ان کی طبیعت خراب ہو گئی یہا ں تک کہ آئی -سی-یو میں لے جانا پڑا- ۱۰ ستمبر بروز جمعہ مبارک کو خالہ جان نے دل دہلا دینے والی خبر سنائی اور وہ اس دنیا میں ہمیں روتا چھوڑ کر چلے گئے- اللہ تعالٰی ان کی قبر کو روشن کرے اور انکی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے-
آمین ثم آمین
فضہ بی بی
جماعت نہم گورنمنٹ گر لز ہائی سکول جمن شاہ لیہ