قرض کا بوجھ نوجوان بیوی نے کیسے اتارا
شوہر کا بڑا قرض کو بیوی کی کمزور ٹانگوں نے کیسے اٹھایا
میرے شوہر نے کاروبار کے لیے ایک سیٹھ سے لاکھوں روپے قرضہ لے رکھا تھا۔ لیکن اب دن رات پریشان رہتے کیونکہ کاروبار تباہ ہو گیا تھا جبکہ ابھی قرضہ بھی واپس دینا تھا۔ میں انہیں دن رات تسلی دیتی رہتی اور حوصلہ بڑھاتی، مگر ان کی پریشانی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔
ایک رات، جب میں اپنے شوہر کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، انہوں نے اچانک مجھے تیار ہونے کو کہا اور الماری میں سے ساڑھی نکال کر دی تو مجھے حیرت ہوئی کیونکہ انہیں تو ساڑھی پسند ہی نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ میں مغربی لباس پہنوں، مگر آج وہ خود مجھے ساڑھی پہنانا چاہ رہے تھے۔
“یہ ساڑھی؟” میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
“ہاں، آج رات ہمیں ایک اہم دعوت میں جانا ہے۔” ان کے چہرے پر ایک عجیب سا تناؤ تھا جو میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
میں نے ان کی بات مان لی اور ساڑھی پہن کر تیار ہو گئی۔ ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ کر شہر کے ایک پوش علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے بھر میرے شوہر خاموش رہے، اور مجھے کچھ بھی بتانے سے گریز کرتے رہے۔
جب ہم بنگلے پر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ یہ ایک شاندار اور پرکشش جگہ تھی۔ دروازے پر ہمیں سیٹھ اشفاق نے خوش آمدید کہا۔ وہ ایک امیر اور با اثر شخص تھا، جس نے میرے شوہر کو قرض دیا تھا۔
“آئیے، آئیے، آپ کا انتظار کر رہا تھا۔” سیٹھ نے مسکرا کر کہا۔
اندر داخل ہونے پر میں نے دیکھا کہ بنگلہ اندر سے بھی بہت شاندار تھا۔ لیکن وہاں صرف ہم تین لوگ ہی تھے۔ کوئی اور مہمان نہیں تھا۔ یہ بات میرے لیے مزید پراسرار ہو گئی۔
سیٹھ اشفاق نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور بات چیت شروع کی۔ میرے شوہر کے چہرے پر پسینہ تھا اور وہ بے چینی سے کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
“آصف، تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں قرض دیا تھا تاکہ تم اپنا کاروبار چلا سکو۔ مگر اب تک تم نے کچھ بھی واپس نہیں کیا۔” سیٹھ نے سنجیدگی سے کہا۔
“میں جانتا ہوں، سیٹھ صاحب۔ مگر حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔” میرے شوہر نے عاجزی سے جواب دیا۔
سیٹھ نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، “آصف، میں تمہاری مشکلات کو سمجھتا ہوں۔ مگر قرض واپس کرنا ضروری ہے۔”
پھر اچانک اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “لیکن اگر تم چاہو تو ہم ایک اور راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔”
میرے شوہر کی آنکھوں میں خوف نظر آنے لگا اور میں بھی گھبرا گئی۔ “سیٹھ صاحب، آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟” میں نے پوچھا۔
سیٹھ نے میری طرف گھورتے ہوئے کہا، “اگر تم آج رات میرے ساتھ گزارو، تو میں تمہارے شوہر کا سارا قرض معاف کر دوں گا۔”
یہ بات سن کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میرے شوہر نے مجھے بے بسی سے دیکھا، جیسے وہ چاہتے ہوں کہ میں یہ قربانی دوں، مگر وہ کچھ کہہ نہیں پائے۔
میں نے کچھ لمحوں کے لیے سوچا اور پھر کہا، “سیٹھ صاحب، آپ کو شرم آنی چاہیے۔ میں اپنے شوہر کی مدد کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں، مگر اپنی عزت کا سودا نہیں کر سکتی۔”
میں نے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے نکل گئی۔ جب ہم واپس گھر پہنچے تو میرے شوہر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
“مجھے معاف کر دو، میں نے تمہیں اس صورتحال میں ڈال دیا۔” انہوں نے روتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں، ہم مل کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں گے۔” میں نے انہیں تسلی دی۔
اگلے دن، ہم نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے مدد مانگی اور آہستہ آہستہ قرض کی رقم جمع کرنا شروع کر دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ، ہم نے اپنے حالات کو بہتر بنایا اور سیٹھ اشفاق کے قرض سے آزاد ہو گئے۔ مگر اس رات نے ہمیں ایک سبق سکھایا کہ عزت اور خودداری سب سے بڑھ کر ہے۔