میں بیوی کی موت کی خبر سننے کے لیے بڑا بے تاب تھا کہ اچانک اماں

بہو کی آخری سانسیں چل رہی ہیں اور وہ تمہیں کچھ کہنا چاہتی ہے

میں دوڑتا ہوا گھر پہنچا تو میری بیوی نے مرتے ہوئے ایسی بات بتائی کہ میری تو روح لرز اٹھی

یہ ایک تخیلاتی کہانی ہے، اور اس کا مقصد صرف تفریح فراہم کرنا ہے۔

میں جلدی سے اس کے پاس پہنچا۔ اُس کا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا، آنکھوں میں نمی تھی، اور ہونٹ کانپ رہے تھے۔ میرے دل میں خوف اور تجسس دونوں تھے۔ اُس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں کہا:
“میں جانتی ہوں کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے، اور تمہاری زندگی میں میری کوئی اہمیت نہیں تھی۔ مگر میں نے ہمیشہ تمہیں خوش دیکھنے کی دعا کی۔”
اُس کے الفاظ میرے دل پر چوٹ کر رہے تھے، لیکن اگلا جملہ سن کر میرا دل دہل گیا۔

وہ بولی:
“آج جب تم نے مجھے دودھ دیا، تو میں نے دیکھ لیا تھا کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ مگر میں نے وہ دودھ پینے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں تمہاری زندگی سے بوجھ بننا نہیں چاہتی تھی۔ مگر ایک بات یاد رکھنا…”

میری سانسیں تھم گئیں۔ میں کانپتے دل کے ساتھ اُس کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس نے لرزتے ہونٹوں سے کہا:
“یہ زہر میں نے نہیں پیا۔ تمہاری اماں نے دودھ میرے سامنے رکھ دیا اور محبت سے کہا، یہ دودھ میں نے اپنے بیٹے کے لیے خاص بنایا ہے، تم اُسے دے دینا۔”

یہ سن کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میرا دل لرزنے لگا۔
“تمہاری اماں نے وہی دودھ پی لیا ہے، اور شاید اب اُن کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ جاؤ، اُنہیں بچانے کی کوشش کرو۔”

اُس کے یہ الفاظ سن کر میرا جسم کانپنے لگا۔ اماں کے کمرے کی طرف بھاگا، لیکن وہاں پہنچ کر جو منظر دیکھا، اُس نے میری دنیا اندھیر کر دی

کہتے ہیں کہ جب میں دوڑتا ہوا گھر پہنچا، تو میری بیوی بسترِ مرگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ زرد، لیکن اس کی آنکھوں میں اب بھی ایک عجیب سی چمک تھی۔ میں جیسے ہی اس کے قریب پہنچا، اس نے لرزتے ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی:

“مجھے معلوم تھا کہ تم مجھ سے خوش نہیں ہو۔ میں نے ہمیشہ تمہیں خوش دیکھنے کی کوشش کی، لیکن شاید میں تمہاری خواہشات کے مطابق نہیں بن سکی۔ اس کے باوجود، آج میں نے تمہارے لیے ایک تحفہ تیار کیا تھا۔ صبح جب تم دودھ کا گلاس دے کر گئے، تو میں نے وہ دودھ نہیں پیا۔ میں نے سوچا، پہلے یہ یقین کر لوں کہ تم نے ناشتہ کیا یا نہیں۔ اس لیے وہ دودھ میں نے اماں کو دے دیا۔ وہ تمہیں دعائیں دے رہی تھیں کہ بیٹے نے اپنی ماں کا اتنا خیال رکھا۔”

یہ سن کر میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ میری ٹانگیں کانپنے لگیں اور دل دھک سے رہ گیا۔ اماں کمرے کے کونے میں بیٹھی دعا مانگ رہی تھیں۔ میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، وہ آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بند کر رہی تھی۔ اس کی آخری سانس میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔

میں پتھر کی طرح وہیں کھڑا رہ گیا۔ میرے ہاتھ خون سے رنگین تھے، لیکن یہ خون میری بیوی کا نہیں، میری اپنی ماں کا تھا۔

میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں ۔ –
میرا نام شہزادی ہے۔ سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی۔
مجھے عمر سے بدبو آتی تھی۔ ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا۔ خیر میں اللہ کے سامنے رو رو کر دعا مانگتی تھی۔ یا اللہ یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس

ہم بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ انھوں نے بتایا خیر عمر مجھے ہر
مہینے 30 ہزار روپے دیتا ایک دن میں
نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو میں
بس تنگ کرنا چاہتی تھی کے عمر
مجھے طلاق دے دے عمر مسکرانے لگا
میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی لے
دوں گا پریشان نہ ہو تم بس مجھے
چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو جو
کہو گی کروں گا میں کبھی کھانے

جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ عمر سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا ٹانگیں کانپ رہی تھی پرانے سے کپڑے پہنے پسینے سے شرابور پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی