یعقوب نے اپنی بیوی کو تھوڑا آگے ھو کر جھکنے۔۔ آگے پڑھیں

Life gradually returned to normal, but the sadness in my heart never diminished.

خاوند نے احترام سے بیوی کو اکیلے میں ہلایا اور کچن کی طرف

مینجر نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا:

میٹرک میں فیل ہونے پر یعقوب صاحب نے پہلی بار اپنے بیٹے کو تھپڑ مارا تو بیٹا دل برداشتہ ہو کر گھر چھوڑ گیا۔
یعقوب صاحب غصے میں تھے، مگر دل کے کسی گوشے میں وہ اپنے بیٹے، طیب، کی واپسی کے منتظر تھے۔ جب طیب گھر واپس نہ آیا تو ان کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش شروع کی۔ شہر کے گلی کوچے چھانے، رشتہ داروں سے پوچھا، اور اخبار میں اشتہار بھی دیا، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔

ایک سال بعد، پولیس نے انہیں بلایا۔ ایک جنگل سے ایک لڑکے کی جلی ہوئی نعش ملی تھی، جس کی شناخت ممکن نہ ہو سکی۔ یعقوب صاحب نے اس جسم کو اپنے بیٹے کا سمجھا اور دفنا دیا۔ یہ صدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔

زندگی دھیرے دھیرے معمول پر آتی گئی، مگر دل کا غم کبھی کم نہ ہوا۔ بیٹے کی جدائی نے انہیں توڑ دیا تھا۔

بیس سال بعد:
یعقوب صاحب اب ایک ضعیف اور سادہ زندگی گزار رہے تھے۔ ایک دن وہ ایک سادہ ریسٹورنٹ میں گئے۔ حالات نے انہیں تنگدست بنا دیا تھا۔ انہوں نے ویٹر سے کہا:
“بیٹا، سب سے سستی ڈش لے آو۔”

ویٹر نے احترام سے سر ہلایا اور کچن کی طرف بڑھا، لیکن اس کی آنکھوں میں کچھ عجیب سی چمک تھی۔ اس نے ہوٹل کے مینجر کے پاس جا کر کہا:
“سر، ایک بزرگ آئے ہیں، جو مجھے کچھ جانے پہچانے لگتے ہیں۔”

مینجر نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا:
“ایسا کیوں لگتا ہے؟”

ویٹر نے جھجھکتے ہوئے کہا:
“مجھے لگتا ہے یہ میرے والد ہیں۔”

مینجر حیرت سے چونک گیا۔ “تمہیں یقین ہے؟”

ویٹر نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر بولا:
“بہت سال پہلے میں نے اپنے والد کو چھوڑ دیا تھا۔ میں ان کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہوں، مگر آج انہیں دیکھ کر دل عجیب سے دھڑک رہا ہے۔”


مینجر نے ویٹر سے کہا کہ جا کر ان سے بات کرے۔ ویٹر نے ہچکچاتے ہوئے یعقوب صاحب کے قریب جا کر پوچھا:
“حضور، آپ کہاں سے ہیں؟”

یعقوب صاحب نے سر اٹھایا، آنکھوں میں عمر بھر کا دکھ تھا۔ انہوں نے اپنے علاقے کا نام بتایا اور بولے:
“میں تو بیٹے کی تلاش میں نکلا تھا، لیکن زندگی نے مجھے یہاں تک لا پھینکا۔”

ویٹر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ دھیرے سے بولا:
“کیا آپ کا بیٹا طیب تھا؟”

یعقوب صاحب نے چونک کر اسے دیکھا۔
“تمہیں کیسے معلوم؟”

ویٹر کے لب کانپنے لگے۔ وہ دھیمی آواز میں بولا:
“بابا… میں طیب ہوں۔”


یعقوب صاحب کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا۔ دونوں باپ بیٹے بہت دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے، اور ہوٹل کے عملے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سب لوگ یہ جذباتی منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔

طیب نے اپنے والد سے معافی مانگی اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ اب کبھی انہیں چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ یعقوب صاحب کی زندگی کی تاریک راتوں میں بیس سال بعد روشنی لوٹ آئی تھی۔