میری سانس رک گئی۔ میرے دماغ میں بھابھی کی باتیں گونجنے لگیں
میں نے اپنے شوہر کو سب کچھ بتایا، اور وہ بھی حیران تھا
لیکن جیسے ہی ڈاکٹر گیا، ہسپتال کی نرس میرے پاس آئی اور آہستہ سے بولی
ہسپتال جاتی۔ واپسی میں اپنے ساتھ ڈھیر سارے پیسے لاتی اور کہتی کہ ڈاکٹر حاملہ عورتوں سے بچہ
جنم دینے کے بعد ایک چیز لیتے ہیں اور اس کے بدلے لاکھوں دیتے ہیں۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی. میں بھابھی سے اس چیز کا پوچھتی کہ ڈاکٹر کیا چیز لیتے ہیں؟ تو بھا بھی کہتی کہ تم ابھی چھوٹی ہو، تمہیں سمجھ نہیں آئے گی۔
پھر جب میری شادی ہوئی اور میں حاملہ ہوئی تو میں نے بھی اسی ہسپتال میں بچہ جنم دیا۔ لیکن اس وقت میرے ہوش اڑ گئے جب ڈاکٹر نے مجھ سے
جب ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ وہ ایک مخصوص چیز کے لیے تیار رہوں، تو میں حیرت اور خوف کے عالم میں اسے دیکھتی رہ گئی۔ ڈاکٹر نے بڑی نرمی سے کہا، ‘ہم آپ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کریں گے، لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ سمجھیں۔’
میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا، ‘کون سی چیز؟’
ڈاکٹر کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا۔ اس نے کہا، ‘یہ ایک خاص عمل ہے، جس میں ہم ماں سے اُس کے نوزائیدہ بچے کے ناف کے بلڈ سیمپلز لیتے ہیں۔ یہ سیمپلز دنیا بھر میں خاص تحقیق کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کی بہت زیادہ قیمت ہوتی ہے۔’
میری سانس رک گئی۔ میرے دماغ میں بھابھی کی باتیں گونجنے لگیں۔ ‘ڈاکٹر حاملہ عورتوں سے بچہ جنم دینے کے بعد ایک چیز لیتے ہیں اور اس کے بدلے لاکھوں دیتے ہیں۔’ کیا یہ وہی بات تھی؟
میں نے فوراً سوال کیا، ‘لیکن اس سیمپل لینے سے میرے بچے پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا؟’
ڈاکٹر نے یقین دلایا، ‘بالکل نہیں، یہ صرف ناف کی بندش کے بعد لیا جاتا ہے اور بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ صرف آپ کی اجازت سے ہی ممکن ہے۔’
مجھے الجھن ہو رہی تھی۔ میں نے کچھ دیر کے لیے سوچا اور فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شوہر سے بات کرنی چاہیے۔ میں نے اپنے شوہر کو سب کچھ بتایا، اور وہ بھی حیران تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو مزید جانچیں گے۔
اگلے دن، جب ڈاکٹر دوبارہ آیا، تو ہم نے اسے واضح سوالات کیے۔ ڈاکٹر کے جوابات مطمئن کرنے والے تھے، لیکن میرے دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی۔ میں نے کہا، ‘ہم یہ سیمپل نہیں دینا چاہتے۔’
ڈاکٹر نے تھوڑا سا حیرانی سے مجھے دیکھا، لیکن احترام سے کہا، ‘یہ آپ کا حق ہے۔’
لیکن جیسے ہی ڈاکٹر گیا، ہسپتال کی نرس میرے پاس آئی اور آہستہ سے بولی، ‘آپ نے صحیح فیصلہ کیا۔ ہر عورت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا دے رہی ہے اور اس کے بدلے کیا لے رہی ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔’
میرے دل میں بھابھی کے لیے شک اور بھی بڑھ گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جب میں ہسپتال سے گھر جاؤں گی، تو ان سے پوری سچائی پوچھوں گی۔
جب میں واپس گھر پہنچی اور بھابھی سے سامنا ہوا، تو میں نے ان سے سیدھا سوال کیا، ‘بھابھی، وہ چیز کیا ہے جو آپ ہر سال دیتے ہیں؟’
بھابھی کا چہرہ سفید ہو گیا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہیں، پھر آہستہ سے بولیں، ‘میں وہ چیز ڈاکٹر کو نہیں دیتی… میں اپنے بچے کو دیتی ہوں۔’
میرے دل کی دھڑکن رک گئی۔ ‘کیا مطلب؟’
بھابھی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر سال اپنا بچہ ہسپتال کے عملے کے کہنے پر بیرونِ ملک ایڈاپشن کے لیے دے دیتی تھیں، اور اس کے بدلے انہیں رقم دی جاتی تھی۔
میرے پیروں کے نیچے زمین نکل گئی۔ میں نے کہا، ‘یہ تم نے کیوں کیا؟’
انہوں نے رو کر کہا، ‘غربت اور مجبوری۔ لیکن اب تمہیں یہ کبھی مت کرنا۔ اپنے بچے کو ہمیشہ اپنی امانت سمجھنا۔’
میرے دل میں خوف، غصہ، اور دکھ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ یہ کہانی صرف بھابھی کی نہیں تھی، بلکہ ان تمام عورتوں کی تھی جو اپنی مجبوریاں سمجھ نہیں پاتیں اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی دولت کھو دیتی ہیں۔