میرے والدین نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنی آوارہ کزن، سارہ، سے نکاح کر لوں
جب وہ آدھی رات کو درد سے تڑپنے لگی، تو میں اپنے کمرے میں لاتعلق بیٹھا رہا
“خاندان کی عزت کا سوال”
میں نے ہمیشہ عزت اور روایات کو اپنی زندگی کا محور سمجھا تھا۔ لیکن اس دن، جب خاندان کی عزت پر سوال اٹھا، میرے والدین نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنی آوارہ کزن، سارہ، سے نکاح کر لوں۔ وہ حاملہ تھی، اور یہ بات ہمارے خاندان کے لیے ایک شرمندگی بن سکتی تھی۔ میں نے سخت دل سے ہاں کی، مگر دل میں اس کے لیے نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔
سارہ کے ساتھ گزارا وقت مشکل ترین تھا۔ میں نے اسے کبھی اپنی بیوی کے طور پر قبول نہیں کیا۔ جب وہ آدھی رات کو درد سے تڑپنے لگی، تو میں اپنے کمرے میں لاتعلق بیٹھا رہا۔ میرے گھر والوں نے اسے ہسپتال لے جانے کا انتظام کیا، اور ابو نے مجھے سخت لہجے میں کہا کہ ہسپتال پہنچ جاؤں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں وہاں گیا۔
ہسپتال کے وارڈ میں داخل ہوتے ہی میرے جذبات قابو سے باہر ہو گئے۔ سارہ کے پاس ایک نوزائیدہ بچہ تھا، اور میرے دل میں غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیسے اس سب کا بدلہ لوں، جب میرے والد نے مجھے بلایا۔ وہ سخت غصے میں تھے اور ایک رپورٹ میرے ہاتھ میں تھما دی۔
“یہ دیکھو!” انہوں نے چیختے ہوئے کہا۔ میں نے رپورٹ پڑھنی شروع کی۔ میرے دماغ میں جیسے گھنٹیاں بجنے لگیں۔ یہ ڈی این اے رپورٹ تھی۔ اور اس کے مطابق بچہ میرا تھا۔
زمین میرے پیروں تلے سے نکل گئی۔ وہ تمام دن، جب میں اپنی نفرت میں گم تھا، اور سارہ کی حقیقت کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی، میری آنکھوں کے سامنے گزرنے لگے۔ میرے والد کے چہرے پر سختی تھی، لیکن ان کی آنکھوں میں مایوسی صاف جھلک رہی تھی۔
“یہ سب تمہاری لاپروائی اور بے فکری کا نتیجہ ہے!” وہ غصے میں بولے۔ میری نظروں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے اپنی ساری غلطیاں یاد آنے لگیں، وہ لمحے جب میں نے بغیر سوچے سمجھے فیصلے کیے تھے، اور جب میں نے اپنی ہی زندگی کی ذمے داریوں کو نظرانداز کیا تھا۔
سارہ، جو بستر پر لیٹی ہوئی تھی، کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ لیکن ان آنسوؤں میں نفرت نہیں تھی، بلکہ ایک امید کی جھلک تھی۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ میں اپنی غلطیوں کو سمجھوں اور اپنی زندگی کو بدلوں۔
اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اپنے کیے کا کفارہ ادا کروں۔ اس بچے کو، جو میرا اپنا خون تھا، اور سارہ کو، جس نے بے شمار تکالیف جھیلیں، ان دونوں کو وہ عزت دوں جو ان کا حق تھا۔
میرے دل کی نفرت کی جگہ شرمندگی نے لے لی، اور میں نے سارہ کی طرف پہلا قدم بڑھایا۔